• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 69065

    عنوان: کیا مرد اور عورت کی نماز میں فرق کا کسی حدیث میں لکھا ہے؟

    سوال: جناب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ نماز کا سنت طریقہ کیا ہے ؟حدیث کے مطابق کیا آدمی اور عورت کی نماز میں فرق کا کسی حدیث میں لکھا ہے؟ اور نیت کا بھی صحیح طریقہ بتا دیجئے کہ نیت حدیث کے مطابق کہاں باندھی جاتی ہے؟

    جواب نمبر: 69065

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 968-171/D=11/1437

    نماز کا سنت طریقہ تفصیل کے ساتھ بہشتی زیور کے دوسرے حصے میں مذکور ہے وہاں دیکھ لیں :اختری بہشتی زیور ، دوسرا حصہ /۱۶ ، مکتبہ اختری سہارن پور۔ خواتین کے بارے میں شریعت کا عمومی مزاج یہ ہے کہ ہر کام میں حتی الامکان ستر و حجاب سے کام لے، جن کاموں میں بے پردگی کا اندیشہ تھا وہاں عورتوں کے لیے الگ احکام رکھے گئے ہیں، طہارت کے مسائل ہوں یا حج روزہ وغیرہ کے ہر طرح کے مسائل میں یہی پیش نظر رہا ہے کہ عورتیں ایسا طریقہ اختیار کریں جن میں زیادہ پردے کا اہتمام ہو، لہذا نماز جیسی اہم عبادت میں بھی بعض مخصوص مواقع پر عورتوں کا طریقہٴ نماز مردوں سے مختلف ہے، وجہ صرف یہی ہے کہ اُن کے پردے کا لحاظ کیا جائے مثلا عورت ہمیشہ اپنے دوپٹے وچادر کے اندر سے ہی دونوں ہاتھ صرف کندھے تک اٹھائے جبکہ مرد کے لئے سردی کے علاوہ عام دنوں میں چادر سے باہر ہاتھ نکال کر کانوں تک اٹھانا مسنون ہے، مردوں کو سجدے میں پیٹ رانوں سے اور بازو بغل سے جدا رکھنے چاہئیں اور عورتوں کو ملا ہوا۔ اسی طرح مرد کی کہنیاں زمین سے اٹھی رہیں اور عورت کی بچھی ہوئی، مردوں کو بیٹھنے کی حالت میں بائیں پاوٴں پربیٹھنا چاہئے اور دائیں پاوٴں کو کھڑا رکھنا چاہئے اور عورتوں کو بائیں سرین کے بل بیٹھنا چاہئے اور دونوں پاوٴں کو دائیں جانب نکالنا چاہئے، ان کے علاوہ اور بھی مقامات ہیں جہاں محض پردہ کی بنا پر مرد و عورت کی نماز میں فرق شریعت میں ملحوظ ہے، اب چند احادیثِ کریمہ ملاحظہ فرمائیں جن میں مرد و عورت کے طریقہٴ نماز کے فرق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عمر  سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”إذا جلست المرأة في الصلاة وضعت فخذہا علی فخذہا الأخریٰ وإذا سجدت ألصقت بطنہا في فخذیہا کأستر مایکون لہا، سنن بیہقی: ۲/۳۱۵، رقم الحدیث: ۳۱۹۹ دارالکتب العلمیة ۔
    عن زید بن أبي حبیب أنہ علیہ السلام مرّ علی مرأتین تصلیان فقال: إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأة في ذلک لیست کالرجال/ مراسیل أبي داوٴد، ص/۸ مکتبہ اتحاد دیوبند،
    مرد کے لیے دونوں ہاتھ ناف کے نیچے اور عورت کے لیے دونوں ہاتھ سینے پر باندھنا مسنون ہے ، عن أبي جحیفة أن علیا قال: السنة وضع الکف علی الکف في الصلاة تحت السرة․ رواہ ابوداوٴد، إعلاالسنن: ۲/۱۹۳، اشرفیہ․
    قال ابوہریرة: أخذ الأکف علی الاکف في الصلاة تحت السرّة، رواہ ابوداوٴد، مصدرِ سابق/ ۱۹۴ ․
    عن وائل بن حجر قال: رأیت النبی وضع یمینہ علی شمالہ في الصلاة تحت السرّة، أخرجہ ابن أبي شیبہ، ورجالہ ثقات، اعلاالسنن: ۲/۱۹۸، اشرفیہ ․
    ․․․․․ بخلاف المرأة فانہا تضع علی صدرہا لأنہ أستر لہا فیکون في حقہا أولیٰ، مصدر سابق/۱۹۹ ․
    عن وائل بن حجر قال: قال لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یا وائل بن حجر إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک والمرأة تجعل یدیہا حذاء ثدیہا، مجمع الزوائد: ۲/۱۰۳، دارالفکر، باب رفع الیدین في الصلاة ․


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند