• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 68937

    عنوان: صف بندی کی ترتیب

    سوال: سنا ہوں کہ نماز میں سب سے پہلے اللہ کے رحمت امام پر برستی ہے ، ان کے بعد امام کے پیچھے جو ہے ان پر، پھر امام کے پیچھے رہنے والے سے ان کے دائیں طرف، پھر ان کے بائیں طرف، اسی طرح آخری صف تک جانے کا۔ بات یہ کہ یہ بات کتنی صحیح ہے ؟قرآن و حدیث کے دلائل سے وضاحت کرنے پر عین کرم ہوگا ۔

    جواب نمبر: 68937

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1401-1389/N=1/1438 احادیث اور فقہ کی کتابوں میں صف بندی کی ترتیب یہ بیان کی گئی ہے کہ پہلا مقتدی امام کے پیچھے کھڑا ہو، اس کے بعد آنے والا شخص پہلے مقتدی کی دائیں جانب سے، پھر بائیں جانب، پھر دائیں جانب پھر بائیں جانب، اس طرح جب پہلی صف مکمل ہوجائے تو دوسری صف بنائی جائے ، اس میں بھی پہلا مقتدی امام کے بالمقابل کھڑا ہو، دوسرا پہلے کی دائیں جانب، تیسرا پہلے کی بائیں جانب، اس طرح دوسری صف مکمل ہونے کے بعد تیسری صف بنائی جائے۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رحمت خداوندی کے پہلے یا بعد میں یا زیادہ اور کم نازل ہونے کا دخل ہے۔ صف بندی کے سلسلہ میں دار العلوم دیوبند کا ایک مفصل فتوی (۲۷۲/ ن، ۲۵۳/ ن،۱۴۳۷ھ)ارسال ہے ، اس میں صف بندی کے دلائل بھی تفصیل کے ساتھ آ گئے ہیں؛ لہٰذا اسے ملاحظہ فرمالیں۔ صف بندی كے سلسے میں ایك اور فتوی بعض حضرات مسجد میں صف کے دائیں طرف بیٹھنے ارو نماز پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جب کہ بائیں طرف جگہ خالی رہتی ہے، حالانکہ دائیں اور بائیں دونوں طرح نماز پڑھنے کی مستقل فضیلتیں احادیث میں آئی ہیں۔ حدیث نمبر (۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ صفوں کے دائیں جانب کھڑے ہونے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (ابوداوٴد) حدیث نمبر (۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مسجد میں صف کے بائیں جانب اس لیے کھڑا ہو تا ہے کہ وہاں لوگ کم کھڑے ہیں تو اسے دو اجر ملتے ہیں (طبرانی، مجمع الزوائد) آپ سے درخواست ہے کہ صف میں بیٹھنے اور نماز کے وقت صف بنانے کی ترتیب اور اس پر ملنے والے اجر کے متعلق تفصیلی جواب تحریر فرمائیں نیز حدیث نمبر (۲) میں ذکر کئے کئے ”دو اجر“ کی بھی وضاحت فرمائیں، نوازش ہوگی۔ Fatwa ID: 272-253/N=1/1438 الجواب وباللہ التوفیق :۔(۱):صف بندی کی ترتیب یہ ہے کہ اولاً پہلی صف مکمل کی جائے، اس کے بعد دوسری صف بنائی جائے ، اس کے بعد تیسری ،چوتھی صف بنائی جائے ،اور ہر صف کی ترتیب میں شرعی طریقہ یہ ہے کہ پہلے آنے والا شخص امام کے پیچھے کھڑا ہو، دوسرے نمبر پر آنے والا پہلے کی دائیں جانب اور تیسرے نمبر پر آنے والا پہلے کی بائیں جانب ، اس کے بعد چوتھے نمبر پر آنے والا دوسرے کی دائیں جانب اور پانچویں نمبر پر آنے والا تیسرے کی بائیں جانب کھڑا ہو اور اس طرح پوری صف بنائی جائے، یہ نہ ہو کہ امام کی ایک جانب مقتدی زیادہ ہوں اور دوسری جانب کم ہوں، البتہ اگر امام سے قرب یا بعد میں دونوں جانب برابر ہوں تو ایسی صورت میں دائیں جانب کو بائیں پر ترجیح ہوگی،یعنی: نیا آنے والا شخص صف میں دائیں جانب کھڑا ہو، حدیث میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی پہلی صف والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور دوسری صف والوں پر؟ آپ نے پھر یہی فرمایا کہ اللہ تعالی پہلی صف والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور دوسری صف والوں پر؟ تو آپ نے پھر یہی فرمایا: اور چوتھی مرتبہ آپ نے فرمایا: اور دوسری صف والوں پر۔اور پہلی، دوسری اور تیسری صف وغیرہ میں بھی فضیلت صف کی دائیں جانب کو ، جیسا کہ حضرت عائشہ کی روایت میں ہے، لیکن اگر دائیں جانب مقتدی زیادہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں جانب کھڑے ہونے والوں کو دوہرے اجر کی بشارت دی ہے، پس دائیں جانب کھڑے ہونے کی فضلیت اس صورت میں ہے جب کہ بائیں جانب مقتدیوں کی تعداد کم نہ ہو ، دونوں جانب برابر مقتدی ہوں، ورنہ بائیں جانب کھڑا ہونا ،دائیں جانب کھڑے ہونے سے افضل ہوگا اور اس پر دوہرا اجر ملے گا، عن أنس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن فی الصف الآخر رواہ بو داود(مشکوة شریف ص ۹۸، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)،وعن عائشة  قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ وملائکتہ یصلون علی میامن الصفوف رواہ أبو داود(حوالہ بالا)،وعن أبي أمامة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ وملائکتہ یصلون علی الصف الأول، قالوا: یا رسول اللہ! وعلی الثاني، قال:إن اللہ وملائکتہ یصلون علی الصف الأول، قالوا: یا رسول اللہ! وعلی الثانی، قال:إن اللہ وملائکتہ یصلون علی الصف الأول، قالوا: یا رسول اللہ! وعلی الثاني، قال: وعلی الثاني، الحدیث رواہ أحمد(حوالہ بالا، ص ۹۸،۹۹)، وعن أبي ھریرة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:توسطوا الإمام وسدوا الخلل رواہ أبو داود(حوالہ بالا ص ۹۹)،، عن ابن عمر قال: قیل للنبي صلی اللہ علیہ وسلم: إن میسرة المسجد تعطلت فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: من عمر میسرة المسجد کتب لہ کفلان من الأجر(سنن ابن ماجہ ص ۷۱، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)، قولہ:”من عمر میسرة المسجد الخ لما بین النبي صلی اللہ علیہ وسلم فضیلة ترک الناس قیامھم بالمیسرة فتعلطت المیسرة فأعلمھم أن فضیلة المیمنة إذا کان القوم سواء في جانبي الإمام، وأما إذا کان الناس فی المیمنة أکثر لکان لصاحب المیسرة کفلان من الأجر ، والحاصل أنہ یستحب توسط الإمام(انجاح الحاجہ حاشیہ سنن ابن ماجہ ص ۷۱)، وفی القھستاني:وکیفیتہ أن یقف أحدھما بحذائہ والآخر بیمینہ إذا کان الزائد اثنین ،ولو جاء ثالث وقف عن یسار الأول والرابع عن یمین الثاني والخامس عن یسار الثالث وھکذا اھ(شامی ۲: ۳۰۹، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)،ومتی استوی جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ(شامی ۲:۳۱۰) قولہ:”وخیر صفوف الرجال أولھا“:لأنہ روي فی الأخبار ”أن اللہ تعالی إذا أنزل الرحمة علی الجماعة ینزلھا أولاً علی الإمام ، ثم تتجاوز عنہ إلی من بحذائہ فی الصف الأول،ثم إلی المیامن، ثم إلی المیاسر، ثم إلی الصف الثاني“، وتمامہ فی البحر (حوالہ بالا)۔ (۲): اور دوہرے اجر کا مطلب یہ ہے کہ دائیں طرف کھڑے ہونے والوں کو جتنا اجر ملے گا،اسے اس کا ڈبل ملے گا؛کیوں کہ امام کا صفوں کے بیچ میں ہونا اور اس کی دونوں جانب مقتدیوں کا برابر ہونا دائیں جانب کھڑے ہونے کی فضیلت سے زیادہ اہم ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند