• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 66829

    عنوان: حنفیہ کے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ وتر کی تینوں رکعتیں ایک سلام سے پڑھی جائیں گی

    سوال: میں عراق (کردستان) میں رہتاہوں جہاں پنچانوے فیصد لوگ سنی ہیں ، آج کل ہم تراویح پڑھ رہے ہیں اور اس کے بعد وتر پڑھتے ہیں، یہاں وتر پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت کے بعد سلام پھیرلیتے ہیں، اور تیسری رکعت الگ سے پڑھتے ہیں تو کیا ہم اس طرح وتر پڑھ سکتے ہیں؟یا ہمیں صرف وتر الگ ہو کر پڑھنی چاہئے؟

    جواب نمبر: 66829

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 883-817/SD=10/1437 حنفیہ کے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ وتر کی تینوں رکعتیں ایک سلام سے پڑھی جائیں، اس لئے اگر بسہولت ممکن ہو، تو حنفی شخص کو اپنے وتر ایک سلام کے ساتھ ہی پڑھنی چاہئے؛ تاہم جہاں صف سے نکلنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو اور امام کے ساتھ وتر پڑھنے کے علاوہ کوئی چارہٴ کار نہ ہو، جیساکہ مسجدِ نبوی اور مسجد حرام میں یہ صورت بکثرت پیش آتی ہے، تو ایسی حالت میں حنفی شخص کے لیے دو سلام سے وتر پڑھانے والے امام کے پیچھے وتر پڑھنے کی گنجائش ہے۔ لا یجوز اقتداء الحنفي بمن یسلم من الرکعتین في الوتر، وجوّزہ أبوبکر الرازي ویصلي معہ بقیة الوتر؛ لأن إمامہ لم یخرج بسلامہ عندہ وہو مجتہد فیہ۔ (البحر الرائق ۲/۳۹ کوئٹہ) وبالجملة فمذہب الحنفیة أنہ لا وتر عندہم إلا بثلاث رکعات بتشہدین وتسلیم، نعم لو اقتدیٰ حنفي بشافعي في الوتر وسلم ذٰلک الشافعي الإمام علی الشفع الأول علیٰ وفق مذہبہ ثم أتم الوتر صح وتر الحنفي عند أبي بکر الرازي وابن وہبان۔ (معارف السنن ۴/۱۷۰ أشرفي)ولا عبرة بحال المقتدي وإلیہ ذہب الجصاص وہو الذي اختارہ لتوارث السلف واقتداء أحدہم بالاٰخر بلا نکیر مع کونہم مختلفین في الفروع وکان شیخنا شیخ الہند محمود الحسن أیضاً یذہب إلی مذہب الجصاص۔ (فیض الباري للعلامة الکشمیري ۳/۳۵۴)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند