• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 66157

    عنوان: ایک شخص اگر اذان دینا چاہتاہے تو کیا اس کی داڑھی لمبی ہونی چاہئے اگر چہ اس نے ہلکا خط رکھا ہے ؟

    سوال: ایک شخص اگر اذان دینا چاہتاہے تو کیا اس کی داڑھی لمبی ہونی چاہئے اگر چہ اس نے ہلکا خط رکھا ہے ؟

    جواب نمبر: 66157

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 907-893/N=9/1437 اذان شعائر اسلام میں سے ہے اور ایک اہم دینی فضیلت وبرتری کا کام ہے اور اذان کے ذریعے آدمی دوسروں کو نماز کی دعوت دیتا ہے؛ اس لیے جو شخص اذان دینا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ظاہری وضع قطع شرعی ہو، غیر شرعی نہ ہو، ورنہ اسے اذان واقامت کہنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اور ایک مشت کے بقدر داڑھی رکھنا واجب وضروری ہے، اور داڑھی منڈانا یا ایک مشت یا اس سے کم پر کاٹنا یا تراشنا ناجائز وحرام ہے؛ اس لیے جو شخص داڑھی منڈاتا ہو اس کی اذان و اقامت مکروہ ہے؛ کیوں کہ وہ شریعت کی نظر میں فاسق وفاجر ہے اور فاسق وفاجر شریعت کی نظر میں اذان واقامت نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح جو شخص ایک مشت یا اس سے کم پر داڑھی کاٹتا یا تراشتا ہے یعنی: کاٹ چھانٹ اسے ایک مشت سے کم رکھتا ہے تو وہ بھی فاسق وفاجر ہے اور شریعت کی نظر میں داڑھی نہ رکھنے والے کے حکم میں ہے؛ کیوں کہ شریعت کے نزدیک داڑھی کی واجب مقدار ایک مشت ہے؛ اس لیے یہ شخص بھی اذان واقامت نہیں کہہ سکتا۔ اگر اس طرح کا کوئی شخص اذان یا اقامت کہنا چاہتا ہے تو وہ پہلے اپنی وضع قطع شرعی بنائے، اس کے بعد ذمہ داران مسجد یا مستقل موٴذن سے اذان واقامت کہنے کی درخواست کرے، ویکرہ أذان فاسق؛ لأن خبرہ لایقبل في الدیانات (مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوی ص ۲۰۰، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، قولہ: ”وأذان فاسق“ : ہو الخارج عن أمر الشرع بارتکاب کبیرة کذا في الحموي، قولہ: لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات، فلم یوجد الإعلام المقصود الکامل۔ (حاشیة الطحطاوي علی المراقي الفلاح ص: ۱۹۹، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، وینبغي أن لایصح أذان الفاسق بالنسبة إلی قبول خبرہ، والاعتماد علیہ، أي لأنہ لا یقبل قولہ في الأمور الدینیة، فلم یوجد الإعلام کما ذکرہ الزیلعي، وحاصلہ أنہ یصح أذان الفاسق وإن لم یحصل بہ الإعلام أي: الاعتماد علی قبول قولہ في دخول الوقت (رد المحتار ۱: ۶۱، ۶۲ ط: مکتبة زکریا دیوبند)، فلذلک - فلأجل أن الأمر للوجوب -کان حلق اللحیة محرما عند أیمة المسلمین المجتھدین: أبي حنیفة ومالک والشافعي وأحمد وغیرھم، وھاک بعض نصوص المذاھب فیھا قال في کتاب الصوم من الدر المختار: ……وأما الأخذ منھا وھي دون ذلک- أي: دون القبضة - کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلھا فعل یھود الھند ومجوس الأعاجم اھ وقال فی البحر الرائق: ……وأما الأخذ منھا وھي دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربة والمخنثة من الرجال فلم یبحہ أحد کذا في فتح القدیر اھ ونحوہ في شرح الزیلعي علی الکنز وحاشیة الشرنبلالي علی الدرروغیرھما من کتب السادة الحنفیة (المنھل العذب المورود، کتاب الطھارة، حکم اللحیة ۱: ۱۸۶، ط: موٴسسة التاریخ العربي بیروت لبنان)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند