• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 65988

    عنوان: خروج ریح کے سلسلے میں شک ہونے کے بعد بھی نماز پڑھتا رہے تو کیا حکم ہے؟

    سوال: میراسوال یہ ہے کہ اگر دوران نماز خروج ریح کا شک یاوہم ہو اور شک کو رفع کرنے کے لیے نمازجاری رکھی جائے ۔ لیکن وضوناقص ہو چکا ہو اور نمازی شک میں لاعلم رہے ۔ اس کے بعد اور نوافل بھی پڑہے ، تو کیاایسی صورت میں وہ کافرہوجاے گا؟ جبکہ وہ اس معاملے میں اللہ رب العزت کا خوف بھی رکھتا ہو۔ اور ایسی صورت حال صرف دوران نماز ہی پیش آتی ہو۔ بعدنماز کفر کے اندیشے بھی بہت پریشان کرتے ہوں، ایسی صورت حال میں کیاکیاجائے ؟ براہ مہربانی جلد جواب دیں،سائل بہت پریشان ہے ۔ جزاک اللہ خیر۔

    جواب نمبر: 65988

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 635-635/Sd=8/1437 محض خروج ریح کے شک یا وہم کی وجہ سے وضوء پر کوئی اثر نہیں پڑتا، جب تک ریح کے خروج کا یقین یا ظن غالب نہ ہو، اس وقت تک وضو بدستور باقی رہتا ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کے لیے نماز جاری رکھنے اور نماز کے بعد نوافل وغیرہ پڑھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، جو صورت حال آپ کو پیش آتی ہے، بظاہر وہ ایک وسوسہ ہے، جس کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے۔ اس طرح کے خیالات بسا اوقات پیش آتے ہیں، ان کو سوچنا نہیں چاہیے۔ الیقین لا یزول بالشک․ (قاعدة) وقال ابن عابدین: بخلاف ما إذا شک في الحدث؛ لأنہ لم یوجد إلا مجرد الشک، ولا عبرة لہ مع الیقین․ (رد المحتار: ۱/ ۲۶۷، کتاب الطہارة، ط: زکریا، دیوبند) وعن أبي ہریرة رضي اللہ عنہ أن رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وسلم قال: لا وضوء إلا من صوت أو ریح وفي روایة أخری: قال: إذا کان أحدکم في المسجد، فوجد ریحًا في الیتیہ، فلا یخرج حتی یسمع صوتا أو یجد ریحًا (الترمذي: ۱/ ۲۳، ط: مختار اینڈ کمپنی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند