• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 65376

    عنوان: چار ركعت والی سنت كس طرح ادا كی جائے۔

    سوال: میں سعودی عرب میں رہتا ہوں. یہاں عرب لوگ جوکہ امام شافعی رحمت اللہ علیہ کہ مسلک سے ہیں ان کا اکثر ہم سے نماز کہ بارے میں اختلاف ہوتا ہے کہتے ہیں کہ ظہر کی چار سنّت یا تو دو دو رکعت پڑھیں یا اگر چار رکعت ایک ساتھ پڑھنا ہو تو دو رکعت کہ بعد بھیٹنا نہیں ہوگا۔ براہ کرم آپ ایسا کوئی مدلل جواب ارسال کریں کیوں کہ ہمارے بعض ساتھی بہت پریشان ہوتے ہیں کہ کیا ان کی نماز غلط ہے ؟

    جواب نمبر: 65376

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 777-775/N=8/1437 احناف کے نزدیک ظہر میں فرض سے پہلے چار رکعت ایک سلام کے ساتھ سنت موٴکدہ ہیں؛ اس لیے یہ چار رکعت پڑھی جائیں گی اور ایک سلام کے ساتھ پڑھی جائیں گی، صرف دو کعت نہیں پڑھی جائیں گی، نیز دو الگ الگ سلام سے بھی نہیں، شرح معانی الآثار ، سنن ابو داود، سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ایوب انصاری(رض) کی روایت میں ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہر سے پہلے کی چار رکعت سنتوں کے متعلق دریافت فرمایا کہ یہ ایک سلام کے ساتھ پڑھی جائیں گی یا دو سلام کے ساتھ؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک سلام کے ساتھ (یعنی: ہر دورکعت پر سلام نہیں پھیرا جائے گا؛ بلکہ چار رکعت مکمل ہونے پر سلام پھیرا جائے گا)۔ اور اگر کسی نے صرف دو کعتیں پڑھیں یا چار رکعتیں پڑھیں ، لیکن بجائے ایک سلام کے دو سلام سے پڑھیں تو یہ محض نفل ہوں گی، سنت ظہر کی ادائیگی نہ ہوگی۔نیز احناف کے نزدیک فرض اور وتر کی طرح چار رکعت والی سنت اور نفل نماز میں بھی دو رکعت پر قعدہ واجب ہے؛ اس لیے جان بوجھ کر دو رکعت پر قعدہ نہ کرنا درست نہیں۔اورظہر میں فرض سے پہلے کی سنت موٴکدہ کے سلسلہ میں شوافع کا مسلک کیا ہے؟ نیز ان کے یہاں مفتی بہ قول کیا ہے؟نیز ان کے نزدیک قعدہ اولی کا کیا حکم ہے؟ وغیرہ وغیرہ ، ہمیں تحقیقی طور پر معلوم نہیں، یہ ان کے مفتیان کرام ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ حنفی ہیں ؛ اس لیے آپ مسلک حنفی کی تحقیق کے مطابق شریعت پر عمل کریں۔اور چوں کہ چاروں امام بر حق ہیں؛ اس لیے کسی امام کے مقلد کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے امام کے مقلد کو اپنے امام کے مسلک کی ترغیب دے، پس آپ کے شافعی ساتھیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مسلک پر عمل کریں اور آپ اپنے مسلک پر، کوئی شخص کسی دوسرے سے اس کے مسلک کے تعلق سے کوئی تعرض نہ کرے ۔ اور اگر کوئی شخص عالم ہے اور اسے دوسرے امام کا مسلک مرجوح معلوم ہوتا ہے تو وہ دوسرے امام کے کسی بڑے عالم سے رجوع کرے ، وہ اپنے مسلک کے دلائل تسلی بخش طریقے پر سمجھادے گا۔ وسن مؤکداً أربع قبل الظہر وأربع قبل الجمعة وأربع بعدہا بتسلیمة، فلو بتسلیمتین لم تنب عن السنة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل ۲: ۴۵۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ:”بتسلیمة“:لما عن عائشة رضی اللہ عنھا ”کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یصلي قبل الظھر أربعاً وبعدھا رکعتین وبعد المغرب ثنتین وبعد العشاء رکعتین وقبل الفجر رکعتین“ رواہ مسلم وأبو داود وابن حنبل۔ وعن أبي أیوب الأنصاري (رض) کان یصلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم بعد الزوال أربع رکعات ، فقلت: ما ھذہ الصلاة التي تداوم علیھا؟ فقال: ھذہ ساعة تفتح أبواب السماء فیھا فأحب أن یصعد لي فیھا عمل صالح، فقلت: أفي کلھن قراء ة؟ قال: نعم۔ فقلت: بتسلیمة واحدة أو بتسلیمتین؟ فقال: بتسلیمة واحدة“، رواہ الطحاوي وأبو داود والترمذي وابن ماجة من غیر فصل بین الجمعة والظھر فیکون سنة کل واحد منھما أربعاً، وروی ابن ماجة بإسنادہ عن ابن عباس(رض) کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یرکع قبل الجمعة أربعاً لا یفصل في شییٴ منھن“، الخ (رد المحتار)، و- من الواجبات -القعود الأول ولو في نفل الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة ۲: ۱۵۸، ۱۵۹)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند