• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 65289

    عنوان: فضیلت صرف حرم میں نماز پڑھنے كی ہے یا حدود حرم میں بھی؟

    سوال: جیسا کہ حدیث مین آیا ھے کہ مسجد حرام میں پڑھی جانے والی نماز کا اجر ۱۰۰۰۰۰ نماز کے برابر ھے تو کیا یہ حکم صرف مسجد کے لئے ھے یا حدود حرم میں ہر جگہ پڑھنے کا بھی یھی حکم ھے ؟ کیا نماز کے علاوہ دیگر عبادات بھی اگر حرم یا حدود حرم میں کرنے کا اسی طرح اجر ملے گا؟ کیا حرم یاحدودحرم میں معصیت کرنے والے کو گناہ کا عقاب بھی اسی طرح ملے گا؟

    جواب نمبر: 65289

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1406-1403/N=2/1438
        
    (۱، ۲): حضرت عبد اللہ بن الزیبر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مسجد حرام میں (فرض )نماز پڑھنے کی جو فضیلت آئی ہے، اس میں مسجد حرام کی مراد میں علمائے کرام کا اختلاف ہوا ہے، جمہور احناف کے نزدیک صحیح وراجح یہ ہے کہ اس فضیلت میں مسجد حرام سے مراد اس کا وہ حصہ ہے جو مسجد شرعی ہے، اس میں نماز با جماعت ہوتی ہے اور جنبی اور حائضہ وغیرہ کے لئے اس میں داخلہ شرعاً ممنوع ہے،اور مسجد بھرجانے کی صورت میں اسی کے حکم میں وہ حصہ بھی ہوگا جہاں تک لوگوں کی صفیں ہوں، اس فضیلت میں پورا حدود حرم شامل نہیں ہے؛ لہٰذا اگر کوئی شخص مسجد حرام کے علاوہ مکہ مکرمہ کی کسی اور مسجد میں یا گھر میں فرض نماز با جماعت پڑھتا ہے تو اس کا ثواب مسجد حرام کی نماز کے برابر نہ ہوگا، البتہ بعض روایات کی بنا پر نماز کی تخصیص کے بغیر مطلق نیکی کا ثواب حدود حرم میں ایک لاکھ کے برابر ہوتا ہے(غنیة الناسک قدیم ص ۷۶) ،اور محب الدین طبری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مسجد حرام میں نماز کا ثواب عام نیکیوں سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے (البحر العمیق ص ۱۵۲)۔ اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے علامہ بیری کی شرح اشباہ کے حوالے سے جو قول نقل فرمایا ہے وہ جمہور احناف کے نزدیک محض مشہور ہے ، صحیح وراجح اور محقق قول نہیں ہے؛ اسی لیے صاحب غنیة الناسک نے اس کی تردید فرمائی ہے، چناں چہ فرماتے ہیں: فما في رد المحتار :”وذکر البیري في شرح الأشباہ أن المشھور من أصحابنا أن التضعیف یعم جمیع مکة بل جمیع حرمھا الذي یحرم صیدہ کما صححہ النووي“ لیس کما ینبغي، نعم مضاعفة الحسنة مطلقاً بمائة ألف تعم الحرم کلہ الخ(غنیة الناسک قدیم ص ۷۶)، مزید تفصیل کے لیے اس سلسلہ میں دار العلوم دیوبند کا ایک مفصل ومدلل فتوی (۰۵ ۱۴/ن، ۱۴۰۲/آ ۱۴۳۷ھ) منسلک ہے، اسے ملاحظہ فرمالیں۔
    (۳):جی ! ہاں، علمائے کرام نے لکھا ہے کہ بعض روایات کی بنا پر حدود حرم میں اگر کوئی گناہ کیا جائے تو وہ کیفیت کے اعتبار سے دیگر جگہوں کی بہ نسبت زیادہ سخت اور موجب عتاب ہوتا ہے(غنیة الناسک قدیم ص ۷۷)؛ اس لیے حدود حرم میں خاص طور پر گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔

    از:        محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ،معین مفتی    17/1/1438
    الجواب صحیح:    حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمود حسن بلند شہری غفرلہ، وقار علی غفرلہ، فخر الاسلام عفی عنہ، محمد مصعب عفی عنہ
            مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
    ---------------------------------
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    ۱۴۹۵/ن
    کیا فرماتے ہیں حضرات علمائے کرام اور مفتیان عظام کہ:
    (۱):حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کی روایت میں جو مسند احمد (۴: ۵، حدیث نمبر: ۱۶۱۶۲)اور صحیح ابن حبان (۴: ۴۹۹، حدیث نمبر:۱۶۲۰) میں آئی ہے، مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی جو فضیلت آئی ہے، اس فضیلت میں مسجد حرام سے صرف خانہ کعبہ مراد ہے یا پورا حدود حرم یا مسجد حرام کا وہ مخصوص حصہ جو کعبہ شریف کے ارد گرد ہے اوروہاں نماز با جماعت ہوتی ہے؟
    روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’عن ابن الزبیر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:صلاة في مسجدي ھذا أفضل من ألف صلاة فیما سواہ من المساجد إلا المسجد الحرام ، وصلاة فی المسجد الحرام أفضل من مائة صلاة في مسجدي“
    البحر العمیق میں فرمایا: وصححہ ابن عبد البر وقال: إنہ الحجة عند التنازع نص في موضع الخلاف قاطع لہ عند من ألھم رشدہ ولم یمل بہ عصبیة (ص ۱۴۸)۔
    (۲): حضرات احناف رحمہم اللہ کے نزدیک اس سلسلہ میں صحیح وراجح قول کیا ہے؟ ویسے عام طور پر علامہ شامی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق راجح یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس فضیلت میں مسجد حرام سے پورا مکہ؛ بلکہ پورا حدود حرم مراد ہے ، پس حدود حرم میں کہیں بھی نماز پڑھی جائے ، نماز پڑھنے والے کو بہر حال یہ فضیلت حاصل ہوگی(شامی ۳: ۵۴۷، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)، کیا جمہور احناف رحمہ اللہ کے نزدیک یہ قول صحیح وراجح ہے؟ تفصیل کے ساتھ مدلل جواب تحریر فرمائیں، نوازش ہوگی۔بینوا توجروا
                                       
                            مستفتی:     محمد بدیع الزماں حیدر آباد

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    ۱۴۰۲/ن ۱۴۳۷ھ
    الجواب وباللہ التوفیق :۔(۱،۲):حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کی روایت میں مسجد حرام میں ( فرض )نماز پڑھنے کی جو فضیلت آئی ہے ، اس میں مسجد کی حرام کی مراد میں علمائے کرام کا اختلاف ہوا ہے اور اس سلسلہ میں علما کے متعدد اقوال ہیں، جن میں سے چند اقوال یہ ہیں؛
    پہلا قول: مسجد حرام سے مراد: خانہ کعبہ ہے ، یعنی: خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کی یہ فضیلت ہے(شامی ۳: ۵۴۷، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، البحر العمیق ص ۱۵۰) ، قاضی عز الدین بن جماعہ نے فرمایا: یہ نہا یت دور دراز کی بات ہے(البحر العمیق، ص ۱۵۰)۔
    دوسرا قول: پورا حرم اور عرفہ مراد ہے۔ یہ بھی نہایت دور دراز کی بات ہے (مجامع المناسک ص۳۸۹) ۔
    تیسرا قول: پورا حرم مسجد حرام ہے ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی مروی ہے، پس حدود حرم میں کہیں بھی نماز پڑھی جائے ، یہ فضیلت حاصل ہوگی۔ علامہ ماوردی رحمہ اللہ نے اس پر جزم کیا ہے اور امام نووی رحمہ اللہ سے نقل فرماکر اسے باقی رکھا ہے (غنیة الناسک قدیم،ص ۷۶)،علامہ شامی رحمہ اللہ نے فرمایا: علامہ بیری رحمہ اللہ نے شرح اشباہ میں فرمایا: ہمارے اصحاب حنفیہ کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ یہ فضیلت پورے مکہ کو عام ہے ؛ بلکہ پورے حرم کو شامل ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے اسی قول کو صحیح قرار دیا ہے(شامی ۲: ۴۳۲،۳: ۵۴۷)۔
    چوتھا قول: مسجد حرام کا وہ حصہ مراد ہے جو مسجد شرعی ہے، اس میں نماز با جماعت ہوتی ہے اور جنبی اور حائضہ وغیرہ کے لئے اس میں داخلہ شرعاً ممنوع ہے،اور مسجد بھرجانے کی صورت میں اسی کے حکم میں وہ حصہ بھی ہوگا جہاں تک لوگوں کی صفیں ہوں۔امام مالک رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے، امام نووی رحمہ اللہ نے المجموع اور تہذیب میں اسی کو جزم کے ساتھ ذکر فرمایا ہے، اسنوی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہی ظاہر ہے، ابن حجر مکی رحمہ اللہ نے تحفة المحتاج میں اسی کو اختیار فرمایا اور صحیح قرار دیا، محب الدین طبری اور ابن جماعہ نے بھی اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ اور کبیر میں ہے:یہی ہمارے اصحاب کا ظاہر مذہب ہے۔ ابن الہمام اور شرح منیہ وغیرہ کی عبارات سے بھی یہی ماخوذ ہوتا ہے(غنیة الناسک قدیم،ص ۷۶)، اور البحر العمیق میں ہے: اصحاب حنفیہ کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے ، اس کے بعد دلیل پیش فرمائی (البحر العمیق ص ۱۴۹)،اور مجامع المناسک میں ہے: ہمارے اصحاب حنفیہ کے کلام سے یہی ظاہر ہوتا ہے اور بعض شوافع نے بھی اسی کو اختیار فرمایا ہے (ص ۳۸۹)۔
    اس قول کی تائید میں چند دلائل بھی پیش کیے جاتے ہیں:
    ۱: محب الدین طبری رحمہ اللہ نے فرمایا: حدیث میں مستثنی منہ (مسجد نبوی) سے بالیقین مسجد الجماعة مراد ہے ، پورا حرم مدنی مراد نہیں ہے، پس مستثنی (مسجد حرام) میں بھی مسجد الجماعة ہی مراد ہوگی، پورا حدود حرم مراد نہ ہوگا ( غنیة الناسک قدیم ، ص ۷۶، البحر العمیق ص ۱۴۹ )۔
    ۲: علماء نے فرمایا کہ یہ فضیلت فرائض کے ساتھ خاص ہے، نوافل کے لیے یہ فضیلت نہیں ہے، نوافل کا گھر ہی میں پڑھنا افضل ہے۔ پس جب نوافل کے باب میں گھرکا حکم مسجد سے مختلف ہے تو معلوم ہوا کہ اس فضیلت میں پورا حدود حرم شامل نہیں ورنہ نوافل کے باب میں گھر کا حکم مسجد سے مختلف نہ ہوتا( غنیة الناسک قدیم،ص ۷۶، البحر العمیق ص ۱۴۹ )۔
    ۳: علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ نے فرمایا: دس ذی الحجہ کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز مسجد حرام میں ادا فرمائی یا منی میں؟ اس سلسلہ میں روایات متعارض ہیں اور یہ بات طے شدہ ہے کہ آپ نے ظہر کی نماز دونوں میں سے کسی جگہ ضرور پڑھی ہے ؛ اس لیے یہ ماننا مناسب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذی الحجہ کو ظہر کی نمازمکہ مکرمہ میں مسجد حرام میں ادا فرمائی؛ کیوں کہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مسجد حرام میں فرائض کا ثواب کئی گنا ہوجاتا ہے(فتح القدیر ۲: ۱۸۰، مطبوعہ: مصر)۔ اور ابن حجر نے فرمایا: دس ذی الحجہ کو ظہر کی نماز مسجد حرام کے بجائے منی میں پڑھنا افضل ہے اگر چہ اس صورت میں اصح قول کے مطابق کئی گنا کا ثواب نہ ملے گا (غنیة الناسک قدیم ص ۷۶)،علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ اورابن حجر رحمہ اللہ کی بحث سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو فضیلت آئی ہے وہ پورے حدود حرم کو عام نہیں ہے ؛ کیوں کہ منی حدود حرم ہی میں ہے۔
    ۴:شرح المنیہ کے ایک جزئیہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ فضیلت پورے حرم کو عام نہیں ہے،وہ جزئیہ یہ ہے : محلہ کی مسجد میں اگر کسی کی جماعت چھوٹ جائے تو اگر کسی دوسری مسجد میں نماز با جماعت مل سکتی ہو تو وہاں چلا جائے، البتہ اگر مسجد حرام یا مسجد نبوی کی جماعت فوت ہوجائے تو وہیں نماز پڑھ لے، جماعت پانے کے لیے کسی دوسری مسجد نہ جائے (مختصر البحر بحوالہ:غنیة الناسک قدیم ص ۷۶)۔
    ۵: معلم الحجاج (ص ۱۱۱، مطبوعہ: کراچی پاکستان)میں بھی بظاہر یہی قول اختیار کیا گیا ہے۔
    پس معلوم ہوا کہ جمہور احناف کے نزدیک صحیح وراجح یہ ہے کہ یہ فضیلت پورے حدود حرم کو شامل نہیں ہے، صرف مسجد حرام کے ساتھ خاص ہے جو کعبہ کے ارد گرد ہے اور وہاں نماز با جماعت ادا کی جاتی ہے اور وہاں جنبی اور حیض ونفاس والی عورت کے لیے جانا شرعاً منع ہے،اور مسجد بھرجانے کی صورت میں اسی کے حکم میں وہ حصہ بھی ہوگا جہاں تک لوگوں کی صفیں ہوں، اس فضیلت میں پورا حدود حرم شامل نہیں ہے؛ لہٰذا اگر کوئی شخص مسجد حرام کے علاوہ مکہ مکرمہ کی کسی اور مسجد میں یا گھر میں فرض نماز با جماعت پڑھتا ہے تو اس کا ثواب مسجد حرام کی نماز کے برابر نہ ہوگا، البتہ بعض روایات کی بنا پر نماز کی تخصیص کے بغیر مطلق نیکی کا ثواب حدود حرم میں ایک لاکھ کے برابر ہوتا ہے(غنیة الناسک قدیم ص ۷۶) اور محب الدین طبری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مسجد حرام میں نماز کا ثواب عام نیکیوں سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے (البحر العمیق ص ۱۵۲)۔ اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے علامہ بیری کی شرح اشباہ کے حوالے سے جو قول نقل فرمایا ہے وہ جمہور احناف کے نزدیک محض مشہور ہے ، صحیح وراجح اور محقق قول نہیں ہے؛ اسی لیے صاحب غنیة الناسک نے اس کی تردید فرمائی ہے، چناں چہ فرماتے ہیں:فما في رد المحتار :”وذکر البیري في شرح الأشباہ أن المشھور من أصحابنا أن التضعیف یعم جمیع مکة بل جمیع حرمھا الذي یحرم صیدہ کما صححہ النووي“ لیس کما ینبغي، نعم مضاعفة الحسنة مطلقاً بمائة ألف تعم الحرم کلہ الخ(غنیة الناسک قدیم ص ۷۶)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند