عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 64882
جواب نمبر: 64882
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 936-943/N=10/1437
آپ کی جس غیر مقلد سے بحث ہوئی، اس نے یہ دعوی کیا کہ حنفیوں نے مسائل نماز لکھ کر امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کردئے اور اس نے اس پر کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، جب کہ فقہ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اس وقت فقہ حنفی کی جتنی کتابیں موجود ہیں، ان سب کا با لواسطہ یا بلا واسطہ بنیادی ماخذ امام محمد کی کتابیں: جامع صغیر، جامع کبیر، سیر صغیر، سیر کبیر، زیادات اور اصل (مبسوط )وغیرہ ہیں اور امام محمد کی تصنیف فرمودہ کتابیں امام ابو حنیفہ ہی کی فقہی روایات کا مجموعہ ہیں جو امام محمد نے حضرت امام ابوحنیفة سے براہ راست سن کر روایت کی ہیں؛ اس لیے یہ کہنا کہ حنفیوں نے اپنی طرف سے مسائل نماز یا مسائل روزہ وغیرہ لکھ کر امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کردئے ہیں، قطعاً غلط وبے بنیاد بات ہے ؛ بلکہ سفید جھوٹ ہے۔رہا یہ مسئلہ کہ امام ابو حنیفہ سے کوئی حدیث مروی ہے یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں مسند الإمام أبی حنیفة کا حوالہ کافی ہے، اس میں امام صاحب کی سند ہی سے تمام احادیث جمع کی گئی ہیں۔ اور امام ابوحنیفہ کا مقام حدیث سمجھنے کے لیے حضرت مولانا عبد الرشید نعمانی کی کتاب: مکانة الإمام أبي حنیفة فی الحدیث کا مطالعہ مفید ہوگا، یہ کتاب شیخ عبد الفتاح ابو غدة کے اہتمام سے حلب سے شائع ہوئی ہے۔ اور رہا ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے متعلق کسی حدیث کی سند میں بحیثیت راوی امام ابوحنیفہ کے نام کا مطالبہ تو یہ اہل علم کے نزدیک ایک جاہلانہ مطالبہ ہے ؛ کیوں کہ جب مستند ومعتبر کتابوں کی روشنی میں یہ بات قطعی طور پر ثابت شدہ ہے کہ نماز میں بحالت قیام ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا امام ابو حنیفہ کا مسلک ہے اور یہ مسلک صحیح وقوی دلائل سے ثابت ہے تو اب اسے تسلیم ہی کرلینا چاہئے ،تسلیم کرنے کے بجائے ایسے مطالبات کرنا جن کا مسئلہ کی صحت سے کوئی تعلق نہ ہو کسی طرح بھی صحیح نہیں ہوسکتا۔اس لیے آپ غیر مقلدین کے اس طرح کے سوالات کے جواب کے چکر میں نہ پڑیں ؛ بلکہ حق واضح ہوجانے کے بعد اسے تسلیم کرنے پر مجبور کریں۔اور واضح رہے کہ غیر مقلدین کے سامنے ہمیشہ مجیب نہیں بننا چاہیے ؛ بلکہ ان سے ان کے مسلک کے متعلق سوالات بھی کرنے چاہئے اور ان کے اصول کے مطابق صحیح بخاری کی صحیح وصریح اور مرفوع حدیث ہی کا مطالبہ کرنا چاہئے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند