• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 62908

    عنوان: امام کی جماعت کے بعد دسری اور تیسری جماعت کرنا جائزہے یا نہیں؟

    سوال: میں سعودی عرب میں ملازمت کے لیے آیاہوں ، یہاں اگر کسی سے جماعت کی نماز چھوٹ جاتی ہے تو جماعت کے بعد کوئی بھی آگے بڑھ کے دوسری اور اسی طرح تیسری جماعت کرتاہے چاہے وہ امامت کے شرائط پر پورا اترتا ہو یا نہ ہو ، مثلا اس کی داڑھی نہ ہو یا ننگے سر ہو ،وغیرہ وغیرہ ۔ (۱) کیاہمارے لیے اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا چاہئے یا نہیں؟ چاہے امامت کے شرائط پر پورا اترتا ہو یا نہ ہو ؟ (۲) یا مجھے خود آگے بڑھ کے جماعت کی امامت کرنی چاہئے؟ (۳) امام کی جماعت کے بعد دسری اور تیسری جماعت کرنا جائزہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 62908

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 252-291/N=3/1437-U (۱- ۳): مرد کے لیے ایک مشت کے بقدر داڑھی رکھنا واجب وضروری ہے، داڑھی منڈانا یا ایک مشت سے کم پر کتروانا ناجائز وحرام ہے اور اس کا مرتکب فاسق ہے، اور محض سستی وکاہلی کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے، اوراگر کوئی شخص ننگے سر نماز اس لیے پڑھتا ہے کہ اسے سنت سمجھتا ہے تو یہ اس کی جہالت ہے؛ کیوں کہ کم ازکم تین کپڑوں میں نماز مستحب ہے جن میں سے ایک کپڑا سر پر ہو خواہ وہ عمامہ ہو یا ٹوپی، اور اگر عمامہ اور ٹوپی دونوں ہوں تو یہ سب سے افضل ہے۔ پس اگر کوئی شخص فاسق ومرتکب کبیرہ ہے تو اسے امام نہ بنایا جائے؛ بلکہ ایسی صورت میں اگر آپ کی ظاہری وضع قطع خلاف شرع نہ ہو توآپ خود امامت کے لیے آگے بڑھ جایا کریں، البتہ اگر کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھی گئی تو نماز ہوجائے گی بشرطیکہ اس کی جانب سے کوئی ایسی بات ظاہر نہ ہو جس سے احناف کے نزدیک نماز فاسد ہوجاتی ہے، اور رہا مسئلہ جماعت ثانیہ کا تو احناف کے نزدیک مسجد محلہ میں مسجد شرعی کی حدود میں جماعت ثانیہ مکروہ تحریمی ہے؛ اس لیے اگر مسجد محلہ میں مسجد شرعی کی حدود میں جماعت ثانیہ یا ثالثہ ہورہی ہو یا ہونے جارہی ہو تو آپ اس میں شرکت نہ کریں نہ مقتدی کی حیثیت سے اور نہ امام کی حیثیت سے، البتہ اگر مسجد راستہ کی مسجد ہو، یعنی: اس میں امام اور موٴذن وغیرہ متعین نہ ہو؛ بلکہ اس میں رہ گزر اور مسافرلوگ نماز پڑھتے ہوں تو اس میں جماعت ثانیہ جائز ہے، اسی طرح مسجد محلہ میں بھی خارج مسجد حصہ میں جماعت ثانیہ کرسکتے ہیں، البتہ مسجد کی اصل جماعت چھوڑکر خارج مسجد حصہ میں بھی جماعت ثانیہ یا ثالثہ کا معمول نہ بنایا جائے، قال فی المنھل العذب المورود (کتاب الطھارة حکم اللحیة ۱: ۱۸۶ط موٴسسة التاریخ العربي بیروت لبنان): فلذلک کان حلق اللحیة محرما عند أیمة المسلمین المجتھدین: أبي حنیفة ومالک والشافعي وأحمد وغیرھم، وھاک بعض نصوص المذاھب فیھا قال في کتاب الصوم من الدر المختار: …وأما الأخذ منھا وھي دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلھا فعل یھود الھند ومجوس الأعاجم اھ وقال فی البحر الرائق: …وأما الأخذ منھا وھي دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربة والمخنثة من الرجال فلم یبحہ أحد کذا في فتح القدیر اھ ونحوہ في شرح الزیلعي علی الکنز وحاشیة الشرنبلالي علی الدرروغیرھما من کتب السادة الحنفیة اھ، وقال في رد المحتار (کتاب الصلاة، باب الإمامة ۲: ۲۹۹ط مکتبة زکریا دیوبند): وأما الفاسق فقد عللوا کراھة تقدیمہ بأنہ لا یھتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامة تعظیمہ وقد وجب علیھم إھانتہ شرعاً الا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لا تزول العلة فإنہ لا یوٴمن أن یصلي بغیر طھارة فھو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال بل مشی في شرح المنیة علی أن روایة کراھة تقدیمہ کراھة تحریم لما ذکرنااھ، نیز درمختار وحاشیہ طحطاوی علی الدر (۱: ۲۴۴، مطبوعہ: مکتبہ اتحاد دیوبند) اور فتاوی رشیدیہ (ص ۳۵۰، مطبوعہ: گلستاں کتاب گھر، دیوبند) دیکھیں، قال فی الدر (مع الرد، کتاب الصلاة، باب الأذان ۲: ۶۴): و - کرہ- تکرار الجماعة إلا في مسجد علی طریق فلا بأس بذلک، جوھرة اھ، وفی الرد: قولہ: ”وتکرار الجماعة“: لما روی عبد الرحمن بن أبي بکر عن أبیہ ”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی فی المسجد بجماعة، فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في منزل بعض أھلہ فجمع أھلہ فصلی بھم جماعة“۔ ولو لم یکرہ تکرار الجماعة فی المسجد لصلی فیہ، وروي عن أنس ”أن أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانوا إذا فاتتھم الجماعة فی المسجد صلوا فی المسجد فرادی“ ، ولأن التکرار یوٴدي إلی تقلیل الجماعة؛ لأن الناس إذا علموا أنھم تفوتھم الجماعة یتعجلون فتکثر وإلا تأخروا اھ بدائع۔ وحینئذ فلو دخل جماعة المسجد بعد ما صلی أھلہ فیہ فإنھم یصلون وحدانا، وھو ظاھر الروایة۔ ظھیریة اھ، وفی الدر (مع الرد، کتاب الصلاة، باب الإمامة ۲: ۲: ۲۸۸): ویکرہ تکرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طریق الخ۔ وفی الرد: قولہ: ”ویکرہ“ أي: تحریماً لقول الکافي: لایجوز، والمجمع: لا یباح، وشرح الجامع الصغیر: إنہ بدعة کما في رسالة السندي، …۔ ثم قال فی الاستدلال علی الإمام الشافعي النافي للکراھة ما نصہ: ”ولنا أنہ علیہ الصلاة والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد إلی المسجد وقد صلی أھل المسجد فرجع إلی منزلہ فجمع أھلہ وصلی“ ، ولو جاز ذلک لما اختار الصلاة في بیتہ علی الجماعة فی المسجد، ولأن فيالإطلاق ھکذا تقلیل الجماعة معنیً فإنھم لا یجتمعون إذا علموا أنھا لاتفوتھم، … اھ، ومثلہ فی البدائع وغیرھا، ومقتضی ھذا الاستدلال کراھة التکرار في مسجد المحلة ولو بدون أذان، ویوٴیدہ ما فی الظھیریة: لو دخل جماعة المسجد بعد ما صلی فیہ أھلہ یصلون وحداناً وھو ظاھر الروایة اھ، …، وعن ھذا ذکر العلامة الشیخ رحمہ اللہ السندي تلمیذ المحقق ابن الھمام في رسالتہ أن ما یفعلہ أھل الحرمین من الصلاة بأئمة متعددة وجماعات مترتبة مکروہ اتفاقاً، ونقل عن بعض مشایخنا إنکارہ صریحاً حین حضر الموسم بمکة سنة ۵۵۱ منھم الشریف الغزنوي، وذکر أنہ أفتی بعض المالکیة بعدم جواز ذلک علی مذھب العلماء الأربعة، ونقل إنکار ذلک أیضاً عن جماعة من الحنفیة والشافعیة والمالکیة حضروا الموسم سنة ۵۵۱ اھ وأقرہ الرملي في حاشیة البحر اھ، وقال في غنیة الناسک (ص ۵۱، ۵۲ طبع قدیم): تنبیہ: تکرار الجماعة مکروہ في ظاہر الروایة کراھة تحریم لما قال فی الکافي: إنہ لا یجوز، وفي شرح المجمع: لا یباح، وفي شرح الجامع الصغیر: بدعة کذا فی الدر۔ وفی الدر أیضا: ما اتفق علیہ أصحابنا فی الروایات الظاھرة یفتی بہ قطعاً اھ، وقال في معارف السنن (۲: ۲۸۵ ط مکتبة الأشرفیة دیوبند): وکذلک تکرہ تحریماً من غیر إعادتھما عند أبي حنیفة، وھو ظاھر الروایة کما في رد المحتار (۱: ۵۱۷) (باب الإمامة)، وفي (ص ۳۶۷) من الأذان حکاہ عن الظھیریة۔ وفي روایة شاذة عن أبي یوسف أنہ لا تکرہ إذا لم تکن الجماعة علی الھیئة الأولی، حکاہ إبراھیم الحلبي في شرح المنیة وابن عابدین وغیرھما بلفظ: وروي عن أبي یوسف الخ، امداد الاحکام (۲: ۱۱۱، فصل فی الإمامة والجماعة، سوال: ۱، مکتوبہ: ۲۲/ ربیع الثانی ۱۳۴۰ھ، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) میں کچھ فقہی عبارات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ان عبارات سے معلوم ہوا کہ بصورت مذکورہ مسجد محلہ میں جس میں امام وموٴذن مقرر ہیں جماعت ثانیہ مکروہ ہے، مگر بتغییر ہیئت امام ابویوسف کے قول پر گنجائش ہے، لیکن ہمارے مشائخ نے انتظام عوام کے لیے اس پر فتوی نہیں دیا؛ بلکہ مسجد محلہ میں جہاں امام وموٴذن مقرر ہوں مطلقاً کراہت کا فتوی دیا ہے، واللہ أعلم۔ حاشیہ میں ہے: ”مطلقا کراہت کا فتوی دیا ہے“ ، قلت: وھو الذي یمیل إلیہ القلب لقوة دلیلہ؛ فإن علة الکراھة وھي مظنة التھاون موجودة بعد تغیر الھےئة أیضاً، واللہ اعلم ۱۲ ظ۔ اور امداد الاحکام (۲: ۱۳۵) میں ہے: ولا یخفی أن العلة التی ذکرھا الشافعی أشد وأحذر وأکثر وقوعا واحتمالاً لا سیما فی زمان الفساد وانقطاع الوداد، ومقتضاھا کراھة التکرار ولو بدون أذان، ھذا ھو الحق الراجح عندی، والمراد بالکراھة کراھة التحریم اھ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند