• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 62899

    عنوان: ظہر کاآخری وقت

    سوال: آثار السنن میں ظہر کے وقت کے بیان کے آخر میں علامہ نیموی نے لکھا ہے کہ ایک مثل کا قول صاحبین کا ہے اور یہی ایک قول امام اعظم کا بھی ہے ۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم امام صاحب کے قول پر عمل کرتے ہوئے عصر کی نماز مثل اول کے ختم ہونے کے بعد پڑھ سکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 62899

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 198-198/M=3/1437-U صاحبین کے نزدیک وقت عصر مثل واحد کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور امام صاحب سے بھی ایک قول ایسا ہی ہے اور اس کو بعض احناف راجح بھی قرار دیا ہے؛ لیکن امام ابوحنیفہ کے یہاں اسی پر فتوی ہے؛ لہٰذا عصر کی نماز کو مثلین کے بعد ہی پڑھنا چاہیے، البتہ اگر عصر کی نماز مثل اول کے بعد پڑھ لی گئی تو نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، نماز ادا ہوگئی؛ لیکن مثل اول کے بعد پڑھنے کی عادت نہ بنائی جائے۔ قال الحصکفي: ووقت الظہر من زوالہ إلی بلوغ الظل مثلیہ وعنہ مثلہ، وہو قولہما وزفر والأئمة الثلاثة․ قال الإمام الطحاوی: وبہ نأخذ وفی ”غرر الأذکار“ وہو المأخوذ بہ وفی ”البرہان“ وہو الأظہر لبیان جبریل وہو نص فی الباب وفی ”الفیض“ وعلیہ عمل الناس الیوم وبہ یفتی․ (الدر المختار) قال العلامة الشامي: (قولہ: إلی بلوغ الظل مثلیہ) ہذا ظاہر الروایة عن الإمام ”نہایة“ وہو الصحیح ”بدائع“ و”محیط“ و”ینابیع“، وہو المختار ”غیاثیة“ واختارہ الإمام المحبوبی وعول علیہ النسفی وصدر الشریعة ”تصحیح قاسم“ واختارہ أصحاب المتون، وارتضاہ الشارحون، فقول الطحاوی وبقولہما نأخذ لا یدل علی أنہ المذہب، وما فی ”الفیض“ من أنہ یفتی بقولہما فی العصر والعشاء مسلم فی العشاء فقط علی ما فیہ، وتمامہ فی ”البحر“․ ما فی السراج عن شیخ الإسلام أن الاحتیاط أن لا یؤخر الظہر إلی المثل، وأن لا یصلی العصر حتی یبلغ المثلین لیکون مؤدیا للصلاتین فی وقتہما بالإجماع․ (الدر مع الرد: ۱/۳۵۹، ط: سعید کراچی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند