عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 61299
جواب نمبر: 61299
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 118-101/N=2/1437-U (۱) جی ہاں ! نمازی کے سامنے کسی حائل یا سترہ کے بغیر گذرنے والا گناہ گار ہوتا ہے، البتہ اگر مسجد بڑی ہو یعنی: کم از کم ۶۰/ گز لمبی ہو یا میدان ہو تو خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھنے والے کی نظر جہاں تک جاسکتی ہے، اس کے بعد سے گذرنا جائز ہے اور آسانی وسہولت کے لیے اس کا اندازہ سجدہ کی جگہ سے دو تین صف تک کیا گیا ہے؛ لہٰذا بڑی مسجد یا میدان میں تین صف (۱۲/ فٹ) کے بعد نمازی کے آگے سے گذرنے کی اجازت ہے (در مختار وشامی ۲: ۳۹۸، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، تبیین الحقائق ۱: ۴۰۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، فتاوی دار العلوم دیوبند ۴: ۱۳۶، سوال: ۱۵۸۳، امداد الاحکام ۲: ۵۸، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، کفایت المفتی جدید ۳: ۴۹۴، مطبوعہ دار الاشاعت کراچی، منتخبات نظام الفتاوی ۲: ۷۱، ۷۲، مطبوعہ: ایفا پبلی کیشنز، دہلی، مسائل امامت حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی دامت برکاتہم ص ۳۲۷ وغیرہ)۔ (۲) اگر نمازی کے سامنے کوئی ستون یا سترہ وغیرہ ہے تو ستون یا سترہ کے پیچھے سے بلا تکلف گذرسکتے ہیں، اور اگر کوئی ستون وغیرہ نہیں ہے اور مسجد بڑی ہے یا نماز پڑھنے والا میدان میں نماز پڑھ رہا ہے تو تین صف (۱۲/ فٹ) کے بعد گذرسکتے ہیں، اور اگر مسجد چھوٹی ہے تو اگر ممکن ہو تو نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کرلیا جائے اور اس میں دقت ودشواری ہو تو کوئی سترہ رکھ کر بھی گذرسکتے ہیں اور اگرسترہ بنانے کی کوئی چیز نہ ہو تو رومال وغیرہ نمازی کے سامنے کردے اور گزرجائے۔ اور اگر اس طرح کی کوئی چیز بھی نہ ہو اور سخت ضرورت در پیش ہو مثلا پیشاب کا شدید تقاضہ ہو تو مجبوری میں نمازی کے سامنے سے گذرنے میں کوئی گناہ نہ ہوگا (شامی ۲: ۳۹۹- ۴۰۱، احسن الفتاوی ۴: ۴۱۰ وغیرہ)۔ (۳) جی نہیں! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کے سامنے سے گذرنے سے منع فرمایا ہے اور میدان وغیرہ میں نماز پڑھنے کی صورت میں سترہ کا اہتمام فرماتے تھے اور صحابہ کرام بھی ان سب باتوں پر عمل کرتے تھے جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے (دیکھئے: مشکوة شریف ص۷۳- ۷۵)؛ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نمازی کے آگے سے گذرنے کی اجازت تھی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند