عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 61141
جواب نمبر: 61141
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 860-825/Sn=12/1436-U (۱) نیت میں اصل دل سے نیت کرنا ہے؛ ہاں اگر کوئی شخص مزید استحضار کے لیے زبان سے بھی کہہ لیتا ہے تو یہ پسندیدہ ہے، فقہاء نے اسی مقصد کے تحت دل سے نیت کے ساتھ ساتھ زبان سے نیت کرنے کو بھی مستحب لکھا ہے، درمختار مع الشامی میں ہے: والنیّة بالإجماع وہي الإرادة․․․ أي إرادة الصلاة للہ تعالی علی الخصوص․․․ والمعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادة؛ فلا عبرة باللسان إن خالف القلب․․․ والتلفّظ بہا مستحب وہو المختار إلخ (درمختا مع الشامي: ۲/۹۱ بحث النّیة، ط: زکریا) (۲) مسجد میں جس حصے پر جماعت ہورہی ہو وہاں صفوں کے ساتھ مل کر فجر کی سنتیں ادا کرنا جائز نہیں ہے، مکروہ تحریمی ہے؛ باقی اگر کوئی شخص خارج مسجد یا ستونوں کی آڑ میں کھڑے ہوکر سنتیں پڑھ لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، صحابہٴ کرام سے ایسا کرنا ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں اعلاء السنن (۷/۹۸) (۳) اگر کسی شخص کی فجر کی سنت چھوٹ جائے تو جماعت کے بعد فوراً پڑھنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ سورج نکلنے کے بعد پڑھے، بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے: عن أبي سعید الخدري -رضي اللہ عنہ- یقول: سمعت رسولَ اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- یقول: لا صَلاةَ بعد الصُّبح حتی ترتفع الشَّمس الحدیث (بخاری، رقم: ۵۸۶) یعنی نمازِ فجر کے بعد سورج طلوع ہوکر بلند ہونے تک کوئی نماز نہیں ہے۔ (۴) نمازِ مغرب سے پہلے کوئی سنت نہیں ہے؛ البتہ بعض روایات میں اذانِ مغرب کے بعد دو رکعت پڑھنا ثابت ہے؛ لیکن دوسری طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ مغرب میں تعجیل کا حکم فرمایا، ابوداوٴد کی روایت میں ہے ”لا تزال أمتي بخیر أو قال علی الفطرة ما لم یوٴخروا المغرب إلی أن تشتبک النجوم“ (أبوداوٴد، رقم ۴۱۸، باب في وقت المغرب) اگر لوگ اذان کے بعد دو رکعت نفل میں مشغول ہوجائیں تو مغرب میں تاخیر ہوسکتی ہے جو مذکورہ بالا حدیث کے منشأ کے خلاف ہے؛ اس لیے حنفیہ نے تعجیل مغرب کا لحاظ کرتے ہوئے نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کو پسند نہیں کیا؛ لیکن چوں کہ فی نفسہ جواز ثابت ہے؛ اس لیے اگر کوئی پڑھ لیتا ہے تو گناہ بھی نہیں، گنجائش ہے۔ ”اعلاء السنن“ میں ہے: ”فرجحت الحنفیّة أحادیث التعجیل لقیام الإجماع علی کونہ سنّة وکرہوا التنفّل قبلہا ولا یخفی أنّ العامّة لو اعتادوا صلاة رکعتین قبل المغرب لیخلّون بالسنّة حَتْمًا، ویوٴخرون المغرب عن وقتہا قطعًا، وأمّا لو تنفّل أحد من الخصواص قبلہا ولم یخلّ بسنّة التعجیل فلا یلزم علیہ؛ لأنّہ قد رأی بأمر مباح في نفسہ أو مستحب عند بعضہم، فحاصل الجواب أن التنفّل قبل المغرب مباح في نفسہ وإنّما قلنا بکراہتہ نظرًا إلی العوارض․ (إعلاء السنن، ۲/۶۹، مبحث الرکعتین قبل المغرب) (۵) مسجد میں داخل ہوتے ہی دو رکعت تحیة المسجد پڑھنا مسنون ہے بہ شرطے کہ مکروہ وقت نہ ہو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تحیة المسجد پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ عن أبي رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إذا جاء أحدکم المسجد فلیرکع رکعتین قبل أن یجلس (ترمذي، رقم ۳۱۶، باب م جاء إذا أحدکم المسجد) (۶) خطبہ سننا چاہیے، خطبہ کے دوران تحیة المسجد یا جمعہ کی سنتِ قبلیہ پڑھنا مکروہ ہے۔ طبرانی کی ایک روایت میں ہے إذا دخل أحدکم المسجد والإمام علی المنبر فلا صلاة لا کلام حتی یفرغ الإمام (المعجم الکبیر رقم: ۱۳۷۰۸) اور مصنف بن ابی شیبہ میں حضرت ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: عن ابن عباس وابن عمر أنہا کانا یکرہان الصلاة والکلام یوم الجمعة بعد خروج الإمام (مصنف ابن أبی شیبة: رقم: ۵۱۷۵) (۷) بہتر یہ ہے کہ اولاً دو رکعت تحیة المسجد پڑھے پھر جمعہ کی چار رکعت سنن قبلیہ پڑھے، اگر وقت میں تنگی ہو تو صرف سننِ قبلیہ ۴/ رکعات پر اکتفاء کرے، ایسی صورت میں بھی اسے ”تحیة المسجد“ کا ثواب ملے گا، فقہائے کرام نے صراحت فرمائی ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں آتے ہی فوراً کوئی نماز مثلاً فرض، سنت یا نفل پڑھنے لگتا ہے تو اس نماز کے علاوہ اسے تحیة المسجد کا بھی ثواب ملتا ہے، قال في النہر: وینوب عنہا کل صلاة صلاّہا عند الدخول فرضًا کان أو سُنَّةً․ (شامی، ۲/۴۵۹) (۸) ”سحر“ کی نیت سے کیا مراد ہے، وضاحت کرکے دوبارہ سوال کریں۔ (۹) افطار کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوداوٴد کی درج ذیل روایت میں وارد دعا پڑھنا ثابت ہے ․․․․ ”کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا أفطَرَ قال: ذہب الظّمأُ وابتلَّت العروق وثبت الأجر إن شاء اللہ (أبوداوٴد، رقم: ۲۳۵۷، باب القول عند الإفطار) (۱۰) ہرنماز کو اس کے مقررہ وقت میں پڑھنا نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے؛ لہٰذا اس کے خلاف کرنے کے لیے انتہائی مضبوط دلیل کی ضرورت ہوگی، میدانِ عرفہ میں حاکمِ وقت کے پیچھے باجماعت ظہر اور عصر پڑھنا تو صحاح کی مضبوط روایات سے ثابت ہے؛ لیکن اپنے طور پر جماعت کرنے یا انفراداً نماز ادا کرتے وقت ظہر اور عصر ایک ساتھ پڑھنا اتنی مضبوط دلیل سے ثابت نہیں کہ اس سے حکم قطعی کے خلاف کرنے کی گنجائش ہو؛ بلکہ اس سلسلے میں کوئی معتبر مرفوع روایت بھی نہیں ہے؛ اس لیے امام ابوحنیفہ ، ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری رحمہم اللہ کا مذہب یہ ہے کہ خیمے میں انفراداً یا اپنے طور پر جماعت کرنے کی صورت میں جمع بین الصلاتین جائز نہیں ہے: ولأبی حنیفة أن المحافظة علی الوقت فرض بالنصوص فلا یجوز ترکہ إلاّ فیما ورد بہ الشرع وہو الجمع بالجماعة مع الإمام إلخ (إعلاء السنن، ۱۰/۹۰۷ باب الغدو إلی عرفات إلخ، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة) (۱۱) رکعاتِ وتر کے سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد روایات وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض آپس میں متعارض بھی ہیں، تمام روایات کے تتبع اور ان میں جمع وتطبیق کے بعد جو راجح صورت سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول ایک سلام کے ساتھ تین رکعت پڑھنے کا تھا؛ اس لیے ائمہٴ احناف کے نزدیک وتر تین رکعات پڑھنا ضروری ہے، اس سے کم یا زیادہ پڑھنے سے ”وتر“ ادا نہ ہوگی، تفصیل کے لیے اعلاء السنن: ۶/۲۸ باب الایتار بثلاث إلخ کا مطالعہ کریں۔ (۱۲) جمعہ میں ”فاتحہ“ کا وہی حکم ہے جو عام نمازوں میں ہے یعنی امام کا فاتحہ مقتدی کے لیے کافی ہے، مقتدی فاتحہ نہ پڑھے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند