• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 609573

    عنوان:

    مائک کی آواز بہت تیز کرنا؟

    سوال:

    سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مندرجہ ذیل سوال کے بارے میں۔ ہمارا شہر ایک مسلم اکثریت والا شہر ہے جس میں اکثر راتوں میں کچھ مولانا حضرات مذہبی پروگرام کرتے ہیں ان کے سامعین فیملی ممبر ہی ہوتے ہیں لیکن انکے مائک کی آواز پورے شہر میں رات میں ۱۱ / ۱۲،کبھی کبھی ۱ بجے تک زور شور سے سنی جاسکتی ہے جس کی وجہ سے اس طرح کے پروگرام اسلام کی بے قدری طالب علموں کو پریشانی بزرگوں کو تکلیف مذہبی زبردستی کی ساتھ ساتھ Voice pollution (شور و غل کی آلودگی)کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اسلام میں اس طرح کے پروگرام کی کیا حقیقت ہے؟

    جواب نمبر: 609573

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 598-297/B-Mulhaqa/7/1443

     وقتا فوقتا مذہبی جلسہ منعقد كركے، كسی معتبر عالم دین سے خطاب كرانے میں تو كوئی حرج نہیں ہے؛ لیكن اس میں مائك كی آواز معتدل ركھنا چاہیے‏،آواز اتنی تیز كرنا كہ قرب وجوار كے لوگوں كے لیے سونا اور پڑھنا وغیرہ مشكل ہوجائے‏، جائز نہیں ہے‏؛ لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔ نیز دیر رات تك جلسے كو دراز نہیں كرنا چاہیے‏،اس كی وجہ سے بعض   شركا كی نماز فجر فوت ہوجاتی ہے۔جب كہ نماز اپنے وقت پر پڑھنا فرض ہے۔ عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «والله لا يؤمن، والله لا يؤمن، والله لا يؤمن ". قيل: من يا رسول الله قال: " الذي لا يأمن جاره بوائقه» ". متفق عليه.

    (وعن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: والله) قسم خبره (لا يؤمن) أي: إيمانا كاملا أو إيمانا مطابقا لمبناه ومعناه (والله لا يؤمن، والله لا يؤمن) كرره ثلاثا للتأكيد وهو بلا عاطفة للتأكيد (قيل: من يا رسول الله؟ قال: الذي لا يأمن جاره بوائقه) جمع بائقة بالهمز وهي الداهية أي: غوائله وشروره على ما في النهاية، وذلك لأن كمال الإيمان هو العمل بالقرآن، ومن جملته قوله تعالى: {والجار ذي القربى والجار الجنب} [النساء: 36] ، (متفق عليه) .[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 7/ 3109، رقم:4962]


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند