• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 609329

    عنوان:

    پہلی رکعت میں سورہ ناس پڑھی گئی تو دوسری رکعت میں کون سی سورت پڑھی جائے؟

    سوال:

    فرض نماز اور سنتِ مؤکدہ میں پہلی رکعت میں سورة الناس پڑھ لی تو باقی رکعت میں سورة الناس پڑھیں یا اس سے پہلے والی سورتیں بھی پڑنا جائز ہے ؟ اور کیا اس وقت سجدہ سہو کرنا واجب ہے ؟

    جواب نمبر: 609329

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:443-78/TH-Mulhaqa=7/1443

     (۱، ۲): اگر کسی نے فرض یا سنت موٴکدہ نماز کی پہلی رکعت میں (ختم قرآن پاک کے علاوہ کسی موقعہ پر) سورہ ناس پڑھ دی تو وہ دوسری رکعت میں سورہ ناس ہی پڑھے، اس سے پہلے والی کوئی سورت نہ پڑھے؛ کیوں کہ سورت کا تکرار خلاف ترتیب قراء ت سے اہون ہے، اور اگر کسی نے دوسری رکعت میں سورہ ناس کے بجائے اس سے پہلے والی کوئی سورت پڑھ دی تو نماز ہوجائے گی اور سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوگا؛ البتہ فرض یا واجب نماز میں جان بوجھ کر خلاف ترتیب قراء ت مکروہ تحریمی اور نفل نماز میں راجح قول کے مطابق مکروہ تنزیہی یعنی: خلاف اولی ہے، اور اگر بھول کر ایسا ہوا تو فرض، واجب یا نفل کسی نماز میں مکروہ بھی نہیں (فتاوی دار العلوم دیوبند، ۲: ۲۶۳، ۲۶۴، ۲۶۸، جواب سوال: ۶۰۲، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند، فتاوی خلیلیہ ،کتاب الصلاة، ص: ۱۱۶، مطبوعہ: مکتبة الشیخ، بہادر آباد، کراچی، ا مداد الفتاوی، ۱: ۲۶۰، جواب سوال: ۲۲۹، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند،فتاوی رحیمیہ جدید، ۵: ۱۴۲، ۱۴۳، جواب سوال: ۱۶۴، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی، فتاوی محمودیہ، ۷: ۱۰۵- ۱۰۸، سوال: ۳۲۱۰،۳۲۱۱، ۲۲: ۱۶۶، ۱۶۷، جواب سوال: ۱۰۳۷۸- ۱۰۳۸۰، مطبوعہ: ادارہٴ صدیق ڈابھیل، احسن الفتاوی، ۳: ۴۴، مطبوعہ: ایچ ، ایم سعید کراچی، بوادر النوادر ص ۱۲۷، وغیرہ)۔

    لا بأس أن یقرأ سورة ویعیدھا في الثانیة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل فی القراء ة، ۲: ۲۶۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۳: ۴۸۰، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ:”لا بأس أن یقرأ سورة إلخ“: أفاد أنہ یکرہ تنزیھاً، وعلیہ جزم القنیة بالکراھة ویحمل فعلہ علیہ الصلاة والسلام لذلک علی بیان الجواز، ھذا إذا لم یضطر بأن قرأ في الأولی ﴿قل أعوز برب الناس﴾ أعادھا في الثانیة إن لم یختم، نھر۔ لأن التکرار أھون من القراء ة منکوساً۔ بزازیة۔ وأما لو ختم القرآن في رکعة فیأتي قریباً أنہ یقرأ من البقرة (رد المحتار)۔

    قولہ:”و - یکرہ - أن یقرأ منکوساً“:بأن یقرأ فی الثانیة سورة أعلی مما قرأ فی الأولی؛ لأن ترتیب السور في القراء ة من واجبات التلاوة، وإنما جوز للصغار تسھیلاً لضرورة التعلیم، ط (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل فی القراء ة، ۲: ۲۶۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۳: ۴۸۰، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”ثم ذکر یتم“: أفاد أن التنکیس أو الفصل بالقصیرة إنما یکرہ إذا کان عن قصد، فلو سھوا فلا کما في شرح المنیة (المصدر السابق، ۲: ۲۶۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۳: ۴۸۱، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    ویکرہ أن یقرأ في الثانیة سورة فوق الّتي قرأہا في الأولی؛ لأن فیہ ترک الترتیب الذي أجمع علیہ الصحابة ، ہذا إذا کان قصدًا، وأما سہواً فلا؛ فقد ذکر عن علي بن أحمد أنہ سئل عن رجل قرأ في الأولی من الظہر سورة الفلق وفي الثانیة قل ہو اللہ أحد، فلما بلغ اللہ الصمد تذکر أن علیہ أن یقرأٴ قل أعوذ برب الناس، فقال:یتمّ سورة الإخلاص (غنیة المستملي، ص: ۴۹۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    ویکرہ قراء ة سورة فوق التي قرأھا لما فیہ من قلب التلاوة ، وقال عبد اللہ بن مسعود: من قرأ القرآن منکوساً فھو منکوس کذا فی التجنیس (إمداد الفتاح، ص: ۳۵۹، ۳۶۰، ط:مکتبة الاتحاد دیوبند)۔

    واستثنی فی الأشباہ النافلة، فلا یکرہ فیھا ذلک، وأقرہ علیہ الغزي والحموي، ونقلہ عن أبی الیسر، وجزم بہ فی البحر والدرر وغیرھما إلخ (حاشیة الطحطاوي علی المراقی، ص: ۳۵۲، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔

    وأجاب ط بأن النفل لاتساع بابہ نزلت کل رکعة منہ فعلاً مستقلاً، فیکون کما لو قرأ إنسان سورة، ثم سکت، ثم قرأ ما فوقھا، فلا کراھة فیہ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل فی القراء ة،۲: ۲۷۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۳: ۴۸۲، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”بترک واجب“أي: من واجبات الصلاة الأصلیة لا کل واجب؛ إذ لو ترک ترتیب السور لا یلزمہ شیٴ مع کونہ واجباً، بحر (المصدر السابق، کتاب الصلاة، باب سجود السھو، ۲: ۵۴۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۴: ۴۷۶، ت: الفرفور، ط: دمشق)، ومثلہ في حاشیة الطحطاوي علی المراقي (کتاب الصلاة، باب سجود السھو، ص: ۴۶۰)، وفي التجنیس کما في البحر (کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، ۲:۱۶۷،ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند