• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 608304

    عنوان:

    محض شک کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹتا

    سوال:

    کوئی وضو کر کے مسجد جمعہ کی نماز پڑھنے گیا،۴ سنت ادا کی پھر جمعہ ۲رکعتیں جماعت سے پڑھی،جماعت کے بعد نماز ۴ ۲ ۲ مکمل کی، نماز مکمل کرنے کے بعد شک ہوا کے ۲ رکعت فرض ادا کرتے وقت وضو ٹوٹ گیا تھا، پھر اس نے وضو کر کے ۴ فرض اور ۲سنت ظہر ادا کئے کے ۴ سنت جو جمعہ کے لیے پڑھے تھے وہ ظہر کے لیے کافی ہے،یہ ٹھیک کیا یا نہیں؟ کبھی اگر جمعہ کی نماز پڑھ کر وضو میں شک ہوجائے یا وضو ٹوٹ جائے توکیا جمعہ کی قضاء کرنی ہوگی یا ظہر پڑھنی ہوگی؟اور جو سنت جمعہ میں پڑھی ہے وہ کافی ہوگئی یا وہ بھی دوہرانی ہوگی؟اور جمعہ کی فرض کے بعد جو ۴ ۲ ۲ رکعتیں پڑھی وضو میں شک کی وجہ سے وہ الک سے پڑھنی پڑے گی یا نہیں؟(کیوں کے سنا ہے جو نفل کسی وجہ سے ٹورنا پڑے اس کا بعد میں ادا کرنا واجب ہے؟ سوال۲۔بڑی عمرمیں نمازیں شروع کی،جو ذمہ تھی وہ قضاء پوری کرنی شروع کی بعد میں نماز آہستہ آہستہ مسائل پتہ لگنے شروع ہوئے،تو جو نمازے مسائل نہ پتا ہونے کے وقت پڑھی وہ ساری نمازے بھی دوہرانی ہوگی یا نہیں؟ مسائل تو اب تک نماز کے پورے نہیں بتا ہوئے،سب تو عالم نہیں ہوتے، تو پھر یا جو مسائل بعدمیں معلوم ہوتے ہے ان کی وجہ سے پڑھی ہوئی نمازیں دوہرانی پڑے گی یا نہیں؟ (جب سے نماز شروع کی فرائض،واجبات،سنت،مکروہات،مستحبات اور مفسداد کا پتا تو تھا)مگربعد میں جو تفصیل پتہ ہوتی کے ان کی وجہ سے بھی نمازفاسد ہوجاتی ہے، مثال کے طور پر ۱۔وہ مسائل جن کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوااور نہیں کیا گیا۔ ۲۔قرآن کی تلاوت ٹھیک نہ پڑھی جاتی ہو۔

    جواب نمبر: 608304

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 617-171/TL-7/1443

     (۱)محض شك   كی بنیاد پر نقض وضو كا حكم نہیں ہوتا ،بلكہ نقض وضو كے لئے یقین یا ظن غالب كا ہونا ضروری ہے ؛لہذا شك كی وجہ سے ظہر پڑھنے كی ضرورت نہ تھی ۔

    عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا وضوء إلا من صوت أو ريح» ،: هذا حديث حسن صحيح[سنن الترمذي ت شاكر 1/ 109] قوله: (لا وضوء إلا من صوت) الخ أي لا وضوء واجب إلا من سماع صوت، أو وجدان رائحة ريح خرجت منه، يعنى من حدث متيقن لا مشكوك،[مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 2/ 28]

    (۲)اگر بساوقات جمعہ كی نماز ادا كرتے وقت وضو ٹوٹ جائے تو آدمی كو صف سے نكل كر باہر چلا جائے اور پھر وضو كركے نماز میں شامل ہوجا ئے اور اگر آنے تك نماز مكمل ہوجائے تو كسی دوسری مسجد میں جمعہ كی نماز ادا كرنے كی كوشش كرے ؛ہاں   اگر دوسری مسجد میں جمعہ نہ مل سكے تو ایسی صورت میں ظہر پڑھے جمعہ كی قضاء نہ كرے (مستفاد:از فتاوی رشیدیہ؍ ص ۳۴۴؍ط گلستان كتاب گھر دیوبند)رہا مسئلہ سنتوں كا اس سلسلے میں بہتر تو یہی ہے قبلیہ اور بعدیہ دونوں كے ساتھ ظہر كی نماز پڑھی جائے ،تاہم اگر جمعہ سے قبل پڑھی گئی سنتوں كو نہ دہرائے صرف بعد كی سنتوں كو دہراكر ظہر كی نماز ادا كرلی جائے شرعا اس كی بھی گنجائش ہے ۔ فان صحت الجمعة يكون قد ادي سنتها علي وجهها والا فقد صلي الظهر مع سنته...وان لم تصح فالفرض هوا لظهر وتقع الاربع التي صلاها قبل الجمعة عن سنة الظهر القبلية لكن لطول الفصل بصلاة الجمعة وسماع الخطبة يصلي اربعا اخري(رد المحتار:ج ؍۳ ؍ص ۱۸؍ ط ؍ زكریا دیوبند)

    (۳)محض شك كی وجہ سے نوافل كی عدم صحت كا حكم نہ ہوگا ؛ہاں اگر واقعی دوران نوافل وضو ٹوٹ گیا تھا تو ان نوافل كا اعادہ كرنا ضروری ہے ۔ (ولزم نفل شرع فيه) بتكبيرة الإحرام أو بقيام الثالثة شروعا صحيحا (قصدا) (قوله ولزم نفل إلخ) أي لزم المضي فيه، حتى إذا أفسده لزم قضاؤه أي قضاء ركعتين، وإن نوى أكثر على ما يأتي، [الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 2/ 29]

    (۴)مسائل سے عدم واقفیت كے زمانے میں جو نمازیں ادا كی گئی ہیں اگر ان میں فرائض كو ترك كیا گیا ہے مثلا قرأت میں ایسی غلطی ہوگئی تھی جس سے معنی كفر كی حد تك بدل گئے تھے اور دوران نماز اس غلطی كی اصلاح بھی نہ كی گئی ہو تو ایسی نماز فاسد ہوتی ہے جس كا اعادہ كرنا ضروری ہے ؛لہذا آپ تخمینہ لگا لیں كہ كتنی نمازوں میں ایسی غلطیاں ہوئی ہوں گی اور اسی تخمینہ كی بنیاد پر ان كی قضاء كرلیں ؛ہاں اگر نماز میں سہوا كسی واجب كو ترك كیا ہے تو وقت كے اندر ایسی نماز كا اعادہ واجب ہوتا ہے وقت كے بعد نہیں ۔ذكر في الفوائد لو قرأ في الصلاة بخطأ فاحش ثم رجع وقرأ صحيحا قال عندي صلاته جائزة وكذلك الإعراب ولو قرأ النصب مكان الرفع والرفع مكان النصب أو الخفض مكان الرفع أو النصب لا تفسد صلاته. .[الفتاوى الهندية 1/ 82] "وإعادتها بتركه عمدا" أي ما دام الوقت باقيا وكذا في السهو ان لم يسجد له وإن لم يعدها حتى خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم ويكون فاسقا آثما وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولى لأن الفرض لا يتكرر كما في الدر وغيره[حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ص: 248]


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند