• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 608158

    عنوان: (۱)نماز میں جگہ کے پاک ہونے سے مراد (۲)عورت کی محاذات سے نماز کب فاسد ہوگی ؟

    سوال:

    نماز میں جگہ کا پاک ہونا شرط ہے اس سے کتنی جگہ کا پاک ہونا مراد ہے اگر تشہد میں بیٹھتے وقت پنڈلی کے نیچے کی جگہ ناپاک ہو مگر گھٹنے اور پنجے کی جگہ پاک ہو تو کیا ا نماز درست ہو جائے گی؟

    (۲) شوہر اپنی بیوی کو لیکر نماز کی امامت کررہا ہے اور بیوی ایک قدم پیچھے کھڑی ہے کہ رکوع اور سجدے میں عورت کے اعضاء شوہر کے محاذی ہو جاتے ہیں تو کیا اس طرح نماز درست ہوگی یا فاسد ہو جائے گی؟

    جواب نمبر: 608158

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:251-66T/D-Mulhaqa=5/1443

     

    (۱) نماز میں جگہ کے پاک ہونے سے مراد وہ جگہ ہے جہاں نمازی اپنے اعضاء رکھتا ہے ، یعنی: دونوں قدم، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور پیشانی کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے ، پس اگر تشہد میں دونوں پنڈلی کے نیچے کی جگہ ناپاک ہو جس پر پنڈلی لگی ہوئی ہو اور ناپاکی مقدار عفو سے زائد ہو تو نماز فاسد ہوجائے گی خواہ گھٹنے اور پنجے کی جگہ پاک ہو ۔ (مستفاد از عمدة الفقہ :۴۸/۲ تا ۵۰، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز)

    (۲) صورت مسئولہ میں اگر عورت کا قدم مرد کے کسی عضو کے برابر میں نہ ہوں تو نماز فاسد نہیں ہوگی ، قدم کے علاوہ عورت کے کسی اور عضو کے مرد کے کسی عضو کے برابر ہونے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے ، نماز اسی صورت میں فاسد ہوتی ہے جب کہ عورت کا قدم مرد کے کسی عضو کے محاذات میں آجائے ۔

    قال ابن عابدین: المراد بقولہ أن یحاذی عضو منہا ہو قدم المرأة لا غیر، فإن محاذاة غیر قدمہا لشیء من الرجل لا یوجب فساد صلاتہ، نص علی ہذا فی فتاوی الإمام قاضی خان فی أواسط فصل من یصح الاقتداء بہ ومن لا یصح. وقال: المرأة إذا صلت مع زوجہا فی البیت، إن کان قدمہا بحذاء قدم الزوج لا تجوز صلاتہما بالجماعة، وإن کان قدماہا خلف قدم الزوج إلا أنہا طویلة تقع رأس المرأة فی السجود قبل رأس الزوج جازت صلاتہما لأن العبرة للقدم؛ ألا تری أن صید الحرم إذا کان رجلاہ خارج الحرم ورأسہ فی الحرم یحل أخذہ، وإن کان علی العکس لا یحل انتہی کلام النہایة، ونقلہ فی السراج وأقرہ؛ وفی القہستانی: المحاذاة أن تساوی قدم المرأة شیئا من أعضاء الرجل، فالقدم مأخوذ فی مفہومہ علی ما نقل عن المطرزی؛ فمساواة غیر قدمہا لعضوہ غیر مفسدة اہ. فقد ثبت بما ذکرناہ وجود المحاذاة بالقدم فی مسألة الظلة المذکورة خلافا لما زعمہ فی البحر، وأنہ لا فرق بین التعبیر بالعضو وبالقدم، خلافا لما زعمہ فی البحر أیضا، وأنہ لو اقتدت بہ متأخرة عنہ بقدمہا صحت صلاتہما وإن لزم منہ محاذاة بعض أعضائہا لقدمہ أو غیرہ فی حالة الرکوع أو السجود لأن المانع لیس محاذاة أی عضو منہا لأی عضو منہ، ولا محاذاة قدمہ لأی عضو منہا، بل المانع محاذاة قدمہا فقط لأی عضو منہ۔ ( رد المحتار: ۵۷۲/۱، دار الفکر، بیروت، نیز دیکھیے : عمدة الفقہ : ۲۰۹/۲، ۲۱۰، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند