• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 607553

    عنوان: صفیں درست کرنے کا سنت طریقہ کیا ہے ؟

    سوال:

    صفیں درست کرنے کا سنت طریقہ کیا ہے ؟صفیں اقامت کے بعد درست کی جائیں یا پھر اقامت سے پہلے سے ۔خلفائے راشدین کا عمل بھی بتا دیں۔

    جواب نمبر: 607553

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:443-83T/L=5/1443

     مذکورہ بالا صورت میں صفوں کے درست کرنے کی احادیث میں بڑی تاکید آئی ہے ؛ لہذا دوران نماز درستگی صفوف کا خاص خیال رکھنا چاہئے ،صفوں کو درست کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ مقتدی حضرات نماز میں اس طرح کھڑے ہوں کہ سب کے ٹخنے برابر ہوں اورہرایک اپنے مونڈھے کو دوسرے کے مونڈھے سے اس طرح ملائے کہ درمیان میں فرجہ (فاصلہ ) نہ رہے ۔جہاں تک اس مسئلہ کا تعلق ہے کہ صفیں اقامت کے بعد درست کی جائیں یا اقامت سے پہلے تو اس سلسلے میں صحیح یہ ہے کہ اقامت کہنے والا امام کو نماز کے لئے تیار دیکھ کر اقامت شروع کرے ،اس کے بعد امام مصلے پر پہونچ جائے اور مقتدی حضرات بھی کھڑے ہوکر صفیں درست کرنا شروع کردیں یہ اس وقت ہے جب کہ امام مسجد میں حاضر ہو ،لیکن اگر امام مسجد میں حاضر نہ ہو اور اقامت کہنے والے نے امام کو حجرہ میں تیار سمجھ کر یا مسجد کی طرف آتا ہوا دیکھ کر اقامت شروع کردی تو لوگ اس وقت تک نہ کھڑے ہوں جب تک امام کو سامنے سے آتا ہوا نہ دیکھ لیں، اور اگر امام پیچھے سے آئے تو اظہر قول کے مطابق امام جس صف سے گزرتا جائے وہ صف کھڑی ہوتی جائے یہاں تک کہ جب امام مصلے پر پہونچے تو سب لوگ کھڑے ہوچکے ہوں۔ احادیث میں صراحت ہے کہ حضور اکرم ﷺ جیسے ہی حجرہ شریفہ سے قدم ِ مبارک باہر نکالتے فوراً تکبیر شروع ہوجاتی اور تمام نمازی کھڑے ہوجاتے یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ مصلی پر جس وقت پہونچتے تو سب نمازی کھڑے ہوچکے ہوتے ۔یہی معمول حضراتِ صحابہ کرام کا تھا؛ البتہ اقامت کے بعد حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کا یہ عمل منقول ہے کہ وہ کچھ حضرات کو مقرر کیے ہوئے تھے جو اس کی خبر دیتے کہ صفیں درست ہوگئیں اس کے بعد ہی یہ حضرات تکبیر کہہ کر نماز شروع فرماتے ۔

    (مستفاد ازفتاوی محمودیہ /ج۵/ص۴۷۰/ط دارالمعارف دیوبند/فتاوی عثمانی /ج/۱/ص ۳۷۳/ط زکریا دیوبند)۔عن أنس بن مالک، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: سووا صفوفکم، فإن تسویة الصف، من تمام الصلاة(صحیح مسلم 1/ 324) عن أبی أمامة رضی اللہ عنہ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ وملائکتہ یصلون علی الصف الأول، سووا صفوفکم، وسووا بین مناکبکم، ولینوا لأیدی إخوانکم، وسددوا الخلل، فإن الشیطان یدخل بینکم مثل الحذف والحذف: ولد الضأن الصغار(المعجم الکبیر للطبرانی 8/ 174) أخبرنا مالک، أخبرنا نافع، عن ابن عمر، أن عمر بن الخطاب کان یأمر رجالا بتسویة الصفوف، فإذا جاؤہ فأخبروہ بتسویتہا کبر بعد "[موطأ مالک روایة محمد بن الحسن الشیبانی ص: 56، رقم: 97، باب: تسویة الصف) مالک، عن أبی النضر مولی عمر بن عبید اللہ، عن مالک بن أبی عامر؛ أن عثمان بن عفان کان یقول فی خطبتہ، قل ما یدع ذلک إذا خطب: إذا قام الإمام یخطب یوم الجمعة فاسمعواوأنصتوا. فإن للمنصت، الذی لا یسمع من الحظ، مثل ما للمنصت السامع.فإذا قامت الصلاة فأعدلوا الصفوف، وحاذوا بالمناکب. فإن اعتدال الصفوف من تمام الصلاة. ثم لا یکبر، حتی یأتیہ رجال قد وکلہم بتسویة الصفوف، فیخبرونہ أن قد استوت، فیکبر.[موطأ مالک ت الأعظمی 2/ 144، رقم: 345، ما جاء فی الإنصات یوم الجمعة والإمام یخطب)وقد روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال: من تمام الصلاة إقامة الصف وروی عن عمر: " أنہ کان یوکل رجالا بإقامة الصفوف، ولا یکبر حتی یخبر أن الصفوف قد استوت. وروی عن علی، وعثمان، أنہما کانا یتعاہدان ذلک، ویقولان: استووا ، وکان علی یقول: " تقدم یا فلان، تأخر یا فلان(سنن الترمذی ت شاکر 1/ 439) عن عبد اللہ بن أبی قتادة، عن أبیہ، قال: قال رسول اللہ (ص:130] صلی اللہ علیہ وسلم: إذا أقیمت الصلاة، فلا تقوموا حتی ترونی(صحیح البخاری 1/ 129) إن کان المؤذن غیر الإمام وکان القوم مع الإمام فی المسجد فإنہ یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن: حی علی الفلاح عند علمائنا الثلاثة وہو الصحیح فأما إذا کان الإمام خارج المسجد فإن دخل المسجد من قبل الصفوف فکلما جاوز صفا قام ذلک الصف وإلیہ مال شمس الأئمة الحلوانی والسرخسی وشیخ الإسلام خواہر زادہ وإن کان الإمام دخل المسجد من قدامہم یقومون کما رأی الإمام (الفتاوی الہندیة 1/ 57)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند