• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 607322

    عنوان:

    بچوں کی صف کیسے بنائیں؟ اگر بچے درمیان میں کھڑے ہوجائیں تو کیا انھیں باہر نکال سکتے ہیں؟

    سوال:

    بچوں کو مسجد سے باہر نکالنے میں کتنی سختی کرنی چاہیے ؟ امام صاحب کا بچوں کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکال دینا یا بچوں کے مسجد سے باہر نہ جانے پر نماز نہیں پڑھانا کیسا ہے ؟ براہ کرم، رہبری فرمائیں۔

    جواب نمبر: 607322

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:157-80T/B-Mulhaqa=4/1443

     جوبچے سیانے ہوں، جن کی طرف سے پیشاب پاخانہ وغیرہ کرکے مسجد کو گندی کردینے کا اندیشہ نہ ہو، انھیں مسجد میں لے جانا شرعا جائز ہے ؛ بلکہ عادت ڈلوانے اور نماز دکھلانے اور سکھانے کے مقصد سے انھیں کبھی کبھی مسجد لے جانا مستحسن ہے ، اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں بھی سمجھداربچے مسجد میں آیا کرتے تھے ؛ البتہ ان کی صف بندی کے بارے میں یہ اصول ہے کہ اگر ایک بچہ ہے تو وہ بڑوں کی صف میں شامل ہوگا، بعد میں آنے والا اسے ہٹائے گا نہیں ؛ بلکہ اس کے بغل میں کھڑا ہوگا ؛ البتہ اگر متعدد بچے ہوں تو ان کی صف مردوں کی صف کے پیچھے مستقل بنائی جائے گی ؛ اس لیے سمجھدار بچوں کو مسجد سے نہ نکالنا چاہیے ، امام صاحب کو چاہیے کہ آئندہ ایسا نہ کریں؛ اگر بچے شرارت کرتے ہوں تو ان کو سمجھایا جائے نیز ایسا بھی کیا جاسکتا ہے کہ بچوں کو الگ نہ کھڑا کیا جائے ؛ بلکہ مردوں کے ساتھ ہی متفرقا انھیں کھڑا کیا جائے ، فقہا نے لکھا ہے کہ اگر بچوں کے آپس میں مل کر شرارت کرنے کا اندیشہ ہو تو انھیں مردوں کی صف میں ہی کھڑا کیا جائے۔

    عن عبد الرحمن بن غنم، قال: قال أبو مالک الأشعری: ألا أحدثکم بصلاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: فأقام الصلاة، وصف الرجال وصف خلفہم الغلمان، ثم صلی بہم فذکر صلاتہ.[سنن أبی داود 1/ 181)

    (ویصف) أی یصفہم الإمام بأن یأمرہم بذلک....(الرجال) ظاہرہ یعم العبد (ثم الصبیان) ظاہرہ تعددہم، فلو واحدا دخل الصف (ثم الخناثی ثم النساء) وفی تقریرات الرافعی: قال الرحمتی: ربما یتعین فی زماننا إدخال الصبیان فی صفوف الرجال؛ لأن المعہود منہم إذا اجتمع صبیان فأکثر تبطل صلاة بعضہم ببعض، ربما تعدی ضررہم إلی إفساد صلاة الرجال․ (انتہی) (الدر المختار مع رد المحتار:2/ 313،314،ط: زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند