• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 607147

    عنوان:

    نماز کے بعد اجتماعی اور بالجہر دعا مانگنے کا کیا حکم ہے؟

    سوال:

    پیش امام صاحب مسجد میں پانچو ں وقت ہر فرض نماز میں سلام پھر نے کے ایک دم بعد بلند آواز میں دعا مانگتے ہیں اور نمازیوں سے آمین کہلواتے ہیں کیا یہ قران احادیث سے ثابت ہے ؟

    جواب نمبر: 607147

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:113-26T/B-Mulhaqa=4/1443

     فرض نماز کے بعد دعا قبول ہوتی ہے ؛احادیث میں فرائض کے بعددعا کرنے کی بڑی ترغیب آئی ہے ؛ لیکن یہ دعا انفراداً ہونی چاہے ، اجتماعی جہری دعا کہ جب تک امام صاحب ہاتھ نہ اٹھائیں مقتدی حضرات بھی نہ اٹھائیں اور جب تک امام صاحب دعا ختم نہ کریں ،مقتدی بھی ختم نہ کریں، احادیث وآثار سے ثابت نہیں ہے ؛ اس لیے اس طرح کی اجتماعی دعا کا التزام قابل ترک ہے اور اسے ضروری خیال کرنا تو اور بھی برا ہے ۔امام صاحب کے سلام پھیرتے ہی مقتدیوں کا تعلق امام سے ختم ہوجاتا ہے ؛ اس لیے امام کے سلام پھیر نے کے بعد مقتدی حضرات کو چاہیے کہ ا پنی اپنی دعا کرلیں ، یہ اجتماعی ہیئت مضر نہیں ہے ۔

    عن أَبِی أُمَامَةَ، قَالَ: قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّہِ: أَیُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟ قَالَ: جَوْفَ اللَّیْلِ الآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ المَکْتُوبَاتِ .: ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ. [سنن الترمذی ت شاکر 5/ 526،باب بلا ترجمة)

    عن عمرو بن میمون الأودی قال: کان سعد یعلم بنیہ ہؤلاء الکلمات کما یعلم المعلم الغلمان ویقول: إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یتعوذ بہن دبر الصلاة: اللہم إنی أعوذ بک من البخل، وأعوذ بک من الجبن، وأعوذ بک أن أرد إلی أرذل العمر، وأعوذ بک من فتنة الدنیا، وأعوذ بک من عذاب القبر(السنن الکبری للنسائی 9/ 57، الاستعاذة فی دبر الصلوات)

    عن زید بن أرقم قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدعو فی دبر الصلاة یقول : اللہم ربنا ورب کل شیء أنا شہید أنک الرب وحدک لا شریک لک اللہم ربنا ورب کل شیء أنا شہید أن محمدا عبدک ورسولک اللہم ربنا ورب کل شیء أنا شہید أن العباد کلہم أخوة اللہم ربنا ورب کل شیء اجعلنی مخلصا لک وأہلی فی کل ساعة فی الدنیا والآخرة ذا الجلال والاکرام اسمع واستجب اللہ أکبر الأکبر اللہ نور السماوات والأرض اللہ (الأکبر) آالأکبر حسبی اللہ ونعم الوکیل اللہ (الأکبر) آاللہ الأکبر(عمل الیوم واللیلة للنسائی ص: 184، نوع آخر فی دبر الصلوات)(نیز دیکھیں :فتاوی محمودیہ7/344،مطبوعہ ڈابھیل، احسن الفتاوی3/59،مطبوعہ:مکتبہ زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند