• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 606443

    عنوان:

    امام کی داڑھی اگر فطرتاً چھوٹی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

    سوال:

    اگر کئی نمازیوں کو شک ہو کہ امام ایک مٹھی سے کم داڑھی کو کاٹتا ہے تو اس کی تحقیق کرنا نمازیوں کے لئے لازم ہے یا نہیںِ؟ کچھ نمازیوں نے تحقیق کرنے کی کوشش کی تو جب امام مسجد کو پتا چلا تو سخت ناراضگی کا اظہار کیا چند نمازیو ں کو یہ تک کہلایا کہ وہ افراد میرے پیچھے نماز ناپڑھیں کیونکہ میں ان افراد کو اپنی نیت سے خارج کر دیتا ہوں ۔کیا امام کسی مقتدی کو اس طرح اپنی نیت سے خارج کر سکتا ہے ؟ اس حد تک شدید ردعمل سے تو شک کو اور تقویت حاصل ہوتی ہے ؟

    جواب نمبر: 606443

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:200-36T/L=3/1443

     بعض لوگوں کے داڑھی کے بال چھوٹے ہوتے ہیں؛ اس لیے محض شک وشبہ کی بناپر اس کی تحقیق ضروری نہیں کہ امام کے داڑھی کے بال ایک مشت کے برابر ہیں یا نہیں؟ البتہ اگر کسی کو معتبر ذرائع سے یہ بات معلوم ہوئی ہو کہ امام داڑھی کاٹتا ہے اور شرعی داڑھی نہیں رکھتا تو ایسی صورت میں تحقیق کرسکتے ہیں اور امام کو بھی چاہیے کہ اپنے اوپر لگے الزام کا احسن طریقہ پر دفاع کرے ، ناراض ہرگز نہ ہو، ام الموٴ منین حضرت صفیہ سے روایت ہے کہ وہ آنحضرت ﷺکے پاس اعتکاف کی حالت میں مسجد میں آ ئیں ،یہ رمضا ن کے عشر ہٴ اخیرہ کی بات ہے،اورکچھ دیر آپ ﷺ کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتی رہیں،پھر واپس گھر جانے کے لیے کھڑی ہوئیں،توآپ ﷺ بھی انھیں پہونچانے کے لیے کھڑے ہوگئے،یہاں تک کہ جب وہ مسجد کے دروازہ پر حضرت ام سلمہ کے دروازے کے قریب پہونچے تودو انصاری صحابی پاس سے گذرے اورانھوں نے آنحضرت ﷺ کوسلام کیا،آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ذراٹھہرو!یہ عورت صفیہ بنتِ حیی ہیں کوئی اورنہیں ۔انہوں نے (تعجب سے )سبحان اللہ کہا اوریہ بات انہیں شاق گذری ،(کہ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں یہ خیال کیوں فرمایا کہ ان کے دل میں کوئی بدگمانی آئی ہوگی)اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان انسان سے اتنا قریب ہے ،جتنا انسان کا خون اس سے قریب ہوتا ہے اورمجھے خطرہ ہوا کہ وہ تمہارے دلوں میں کوئی بدگمانی نہ ڈال دے ۔(صحیح بخاری:۲۷۲/۱، رقم :۲۰۳۵،ومسلم:۲۱۶/۲، رقم ۲۱۷۵) اس حدیث کے ضمن میں علماء نے صراحت کی ہے کہ: ظاہر ہے کہ صحابہ کرام آنحضرت ﷺ کے بارے میں کسی بدگمانی کا تصوربھی نہیں کرسکتے تھے ؛لیکن آپ ﷺ نے اپنے عمل سے یہ تعلیم دی کہ کوئی شخص خواہ کتنے بڑے مرتبہ کا ہو،اسے تہمت کے مقامات سے پرہیز کرنا چاہیے،اور ہر اس موقع پر بات واضح کردینی چاہیے، جہاں اس کے بارے میں کسی بدگمانی کا شائبہ ہوسکتا ہویہ نہ صرف جائزبلکہ مستحسن ہے،حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں کہ خاص طورسے علماء کرام اورمقتداؤ ں کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے؛اس لیے کہ عوام کے دل میں ان کی طرف سے بداعتقادی یا بدگمانی پیداہوگئی تووہ ان سے دینی فائدہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔

    وفیہ التحرز من التعرض لسوء الظن والاحتفاظ من کید الشیطان والاعتذار قال بن دقیق العید وہذا متأکد فی حق العلماء ومن یقتدی بہ فلا یجوز لہم أن یفعلوا فعلا یوجب سوء الظن بہم وإن کان لہم فیہ مخلص لأن ذلک سبب إلی إبطال الانتفاع بعلمہم ومن ثم قال بعض العلماء ینبغی للحاکم أن یبین للمحکوم علیہ وجہ الحکم إذا کان خافیا نفیا للتہمة.(فتح الباری لابن حجر 4/ 280) ووجہ الاستدلال بحدیث صفیة لمن منع الحکم بالعلم أنہ صلی اللہ علیہ وسلم کرہ أن یقع فی قلب الأنصاریین من وسوسة الشیطان شیء فمراعاة نفی التہمة عنہ مع عصمتہ تقتضی مراعاة نفی التہمة عمن ہو دونہ.(فتح الباری لابن حجر 13/ 162)

    نوٹ: امام کسی کو اپنی نیت سے خارج نہیں کرسکتا، اگر خارج کربھی دے تو بھی اس کی نماز درست ہوجائے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند