• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 605476

    عنوان:

    اگر کوئی قصدا نماز میں قرآت کی ترتیب کے خلاف پڑھے تو کیا حکم ؟

    سوال:

    اگر کوئی قصدا نماز میں قرآت کی ترتیب کے خلاف پڑھے تو کیا حکم ؟

    جواب نمبر: 605476

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:841-646/N=12/1442

     فرض یا واجب نمازوں میں جان بوجھ کر خلاف ترتیب قراء ت کرنا،یعنی: دوسری رکعت میں پہلی رکعت میں پڑھی گئی سورت سے اوپر والی سورت پڑھنا، جیسے: پہلی رکعت میں سورہ تین اور دوسری میں سورہ الم نشرح پڑھنا مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی اور نہ سجدہ سہو واجب ہوتا ہے؛ کیوں کہ سورتوں میں ترتیب کی رعایت تلاوت کے واجبات میں سے ہے، نماز کے واجبات اصلیہ میں سے نہیں ہے، اور اگر کسی نے سہواً خلاف ترتیب قراء ت کردی تو یہ مکروہ بھی نہیں، اور نفل نمازوں میں خلاف ترتیب قراء ت راجح قول کے مطابق صرف مکروہ تنزیہی یعنی: خلاف اولی ہے، مکروہ تحریمی نہیں ہے (فتاوی دار العلوم دیوبند، ۲: ۲۶۳، ۲۶۴، ۲۶۸، جواب سوال: ۶۰۲، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند، فتاوی خلیلیہ ،کتاب الصلاة، ص: ۱۱۶، مطبوعہ: مکتبة الشیخ، بہادر آباد، کراچی، ا مداد الفتاوی، ۱: ۲۶۰، جواب سوال: ۲۲۹، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند،فتاوی رحیمیہ جدید، ۵: ۱۴۲، ۱۴۳، جواب سوال: ۱۶۴، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی، فتاوی محمودیہ، ۷: ۱۰۵- ۱۰۸، سوال: ۳۲۱۰،۳۲۱۱، ۲۲: ۱۶۶، ۱۶۷، جواب سوال: ۱۰۳۷۸- ۱۰۳۸۰، مطبوعہ: ادارہٴ صدیق ڈابھیل، احسن الفتاوی، ۳: ۴۴، مطبوعہ: ایچ ، ایم سعید کراچی، بوادر النوادر ص ۱۲۷، وغیرہ)۔

    قولہ:”و - یکرہ - أن یقرأ منکوساً“:بأن یقرأ فی الثانیة سورة أعلی مما قرأ فی الأولی؛ لأن ترتیب السور في القراء ة من واجبات التلاوة، وإنما جوز للصغار تسھیلاً لضرورة التعلیم، ط (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل فی القراء ة، ۲: ۲۶۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۳: ۴۸۰، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”ثم ذکر یتم“: أفاد أن التنکیس أو الفصل بالقصیرة إنما یکرہ إذا کان عن قصد، فلو سھوا فلا کما في شرح المنیة (المصدر السابق، ۲: ۲۶۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۳: ۴۸۱، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    ویکرہ أن یقرأ في الثانیة سورة فوق الّتي قرأہا في الأولی؛ لأن فیہ ترک الترتیب الذي أجمع علیہ الصحابة ، ہذا إذا کان قصدًا، وأما سہواً فلا؛ فقد ذکر عن علي بن أحمد أنہ سئل عن رجل قرأ في الأولی من الظہر سورة الفلق وفي الثانیة قل ہو اللہ أحد، فلما بلغ اللہ الصمد تذکر أن علیہ أن یقرأٴ قل أعوذ برب الناس، فقال:یتمّ سورة الإخلاص (غنیة المستملي، ص: ۴۹۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    ویکرہ قراء ة سورة فوق التي قرأھا لما فیہ من قلب التلاوة ، وقال عبد اللہ بن مسعود: من قرأ القرآن منکوساً فھو منکوس کذا فی التجنیس (إمداد الفتاح، ص: ۳۵۹، ۳۶۰، ط:مکتبة الاتحاد دیوبند)۔

    واستثنی فی الأشباہ النافلة، فلا یکرہ فیھا ذلک، وأقرہ علیہ الغزي والحموي، ونقلہ عن أبی الیسر، وجزم بہ فی البحر والدرر وغیرھما إلخ (حاشیة الطحطاوي علی المراقی، ص: ۳۵۲، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔

    وأجاب ط بأن النفل لاتساع بابہ نزلت کل رکعة منہ فعلاً مستقلاً، فیکون کما لو قرأ إنسان سورة، ثم سکت، ثم قرأ ما فوقھا، فلا کراھة فیہ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل فی القراء ة،۲: ۲۷۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۳: ۴۸۲، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”بترک واجب“أي: من واجبات الصلاة الأصلیة لا کل واجب؛ إذ لو ترک ترتیب السور لا یلزمہ شیٴ مع کونہ واجباً، بحر (المصدر السابق، کتاب الصلاة، باب سجود السھو، ۲: ۵۴۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۴: ۴۷۶، ت: الفرفور، ط: دمشق)، ومثلہ في حاشیة الطحطاوي علی المراقي (کتاب الصلاة، باب سجود السھو، ص: ۴۶۰)، وفي التجنیس کما في البحر (کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، ۲:۱۶۷،ط: مکتبة زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند