عنوان: میں انفرادی فرض پڑھ رہاتھا ، میرے پیچھے دو آدمی نماز کے لیے آئے اور انہوں نے مجھے آگے کی صف میں بھیجا اور میرے پیچھے نماز کی نیت کرکے کھڑے ہوگئے ، لیکن میں نے صرف نماز پڑھنے کی نیت کی تھی ، پڑھانے کی نہیں تو کیا اس سے ہماری ادا نماز ہوجائے گی؟
سوال: میں سعودی میں رہتاہوں، اور میں حنفی مسلک سے ہوں، میرا کچھ سوال ہے ، اس کا جواب دیں ، مہربانی ہوگی۔
(۱) میں انفرادی فرض پڑھ رہاتھا ، میرے پیچھے دو آدمی نماز کے لیے آئے اور انہوں نے مجھے آگے کی صف میں بھیجا اور میرے پیچھے نماز کی نیت کرکے کھڑے ہوگئے ، لیکن میں نے صرف نماز پڑھنے کی نیت کی تھی ، پڑھانے کی نہیں تو کیا اس سے ہماری ادا نماز ہوجائے گی؟
(۲) جب ہم یہاں سے عمرہ کے لیے جاتے ہیں بس میں تو راستے میں دو وقتوں کی نماز ایک ساتھ پڑھنا پڑتاہے (مغرب اور عشاء ) اور جب ہم مسجد میں جاتے ہیں پہلے سے ایک جماعت ہورہی ہوتی ہے ، ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ مغرب ہے یا عشاء ، کیوں کہ سب مسافر ہوتے ہیں ، دونوں نماز ایک ساتھ پڑھتے ہیں تو ہم مغرب کی نیت کرکے جڑ جاتے ہیں پھر عشاء کی قصر نماز الگ جماعت سے پڑھتے ہیں ، کیا ایسا پڑھنا صحیح ہے؟
(۳)اب رمضان میں یہاں وتر کی نماز جماعت سے پڑھتے ہیں پہلے دو رکعت پھر ایک کعت اور آخر رکعت میں رکوع کے بعد کھڑے ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں ، ایسا پڑھنا صحیح ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری زندگی میں کس طرح وتر کی نماز پڑھتے تھے ؟
جواب نمبر: 6042101-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1206-1281/L=11/1436-U
(۱) آپ کی نماز ہوجائے گی۔
(۲) کوشش تو یہی کرنی چاہیے کہ دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت پر ادا کی جائیں، اگر بس میں ممکن ہو تو بس میں ہی ادا کرلی جائے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع نہ کیا جائے، جہاں تک جماعت میں شریک ہونے کا مسئلہ ہے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر امام عشاء کی نماز پڑھا رہا ہو تو اس میں مغرب کی نیت سے شامل ہونا درست نہیں، آپ کی مغرب کی نماز ادا نہ ہوگی، اس لیے تحقیق کرنا ضروری ہے کہ نماز مغرب کی ہورہی ہے یا عشاء کی اگر تحقیق نہ ہوسکے تو آپ تنہا یا چند احباب مل کر باجماعت اپنی نماز الگ ادا کرلیا کریں، مسجد کی جماعت میں شامل نہ ہوں۔
(۳) عند الحنفیہ اس طرح وتر کی نماز ادا کرنا درست نہیں، حدیث شریف میں ہے: عن أبی سلمة بن عبد الرحمن، أنہ أخبرہ: أنہ سأل عائشة رضی اللہ عنہا، کیف کانت صلاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان؟ فقالت: ما کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی إحدی عشرة رکعة یصلی أربعا، فلا تسل عن حسنہن وطولہن، ثم یصلی أربعا، فلا تسل عن حسنہن وطولہن، ثم یصلی ثلاثا․ (بخاری شریف: ۱/۱۵۴)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند