• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 604131

    عنوان:

    والدین کے نافرمان کی امامت

    سوال:

    میرا ایک بیٹا ہے جو حافظ قران ہے ۔ رمضان میں تراویح بھی پڑھاتا ہے ۔ لیکن اپنے والدین کا سخت نافرمان ہے ۔ بہت زیادہ بے ادب بد تمیز ہے ۔ مجھے از حد تنگ کرتا ہے ۔ اور سخت اذیت دیتا ہے ۔ ایک عالم دین نے مجھے بتایا کہ "یہ اس مسجد میں ماہ رمضان میں تراویح پڑھاتا ہے جس مسجد کہ آپ صدر ہیں۔ اسکو نماز پڑھانے آگے مت کیجئے ، اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے ، دوسرے نیک صالح کو آگے کیجئے "۔ از راہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں ؟ میں اس کو اپنی تعمیر کردہ مسجد میں امامت نہ کرواؤں؟ اور دوسرے نیک صالح کا انتخاب کروں؟ فقط۔ حاجی محمد یسین، اندھیری، ممبئی۔ مؤرخہ۔ ۳مارچ ۲۰۲۱ء

    جواب نمبر: 604131

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 725-591/D=08/1442

     والدین کی تعظیم اور اکرام کرنا واجب ہے۔ ان کی نافرمانی یا ان کے ساتھ بے ادبی و بدتمیزی کرنا گناہ کبیرہ ہے اور والدین کو ایذا پہونچانا حرام ہے پس اپنے بیٹے کو آپ سمجھائیں کسی عالم سے رابطہ کرادیں تاکہ ان کی صحبت میں رہ کر ادب و تمیز کی باتیں سیکھے۔ کسی اللہ والے سے تعلق قائم کرادیں تاکہ ان کی دعا و توجہ سے اخلاق حمیدہ پیدا کرنے کی توفیق ہو اور ان کی صحبتوں کی برکات حاصل ہوسکیں۔ اگر اصلاح کی طرف متوجہ ہو تو امام بناسکتے ہیں بشرطیکہ دیگر اوصاف امامت موجود ہوں۔ لیکن اگر بے ادبی اور بدتمیزی کی باتیں برملا اور لوگوں کے سامنے صادر ہوتی ہیں جن کا گستاخی پر مبنی ہونا اور ایذا رسانی کا موجب ہونا بالکل ظاہر ہو تو یہ فواحش ظاہرہ اور فسق میں شامل ہوں گی۔ ایسے شخص کی امامت مکروہ ہوگی کسی صالح تر شخص کے موجود ہونے کی صورت میں فاسق کو امام بنانا مکروہ ہے۔ قال فی الدر: والأحق بالإمامة تقدیما بل نصبا الأعلم بأحکام الصلاة فقط صحةً وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرہ الخ ۔ قال الشامی: وفی الکافی وغیرہ الأعلم بالسنة اولیٰ إلا أن یطعن علیہ فی دینہ لأن الناس لا یرغبون فی الاقتداء بہ (الدر مع الرد: 2/294) قال فی الدر أیضا: ویکرہ تنزیہاً امامة عبد ․․․․․ وفاسق۔ وفی الشامی: ہو من الفسق وہو الخروج عن الاستقامة۔ ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزانی وآکل الربا الخ (الدر مع الرد: 9/298)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند