• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 603616

    عنوان:

    اقامت میں صلاة و سلام پڑھنے والی مسجد میں امام کے پیچھے نماز پڑھنا

    سوال:

    مجبوری ہے کہ آس پاس صرف بریلویوں کی مسجد ہے ، سوال یہ ہے کہ اس مسجد میں پانچوں کی وقت نماز پڑھ سکتا ہوں؟ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 603616

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:640-88T/sd=8/1442

     بریلوی امام کے عقائد اگرچہ کفریہ یا شرکیہ نہ ہوں، تب بھی اس کے پیچھے نماز چونکہ مکروہ تحریمی ہوتی ہے، اس لیے صورت مسئولہ میں آپ کو بریلویوں کی مسجد میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے، صحیح العقیدہ اور متبع سنت امام کے پیچھے نماز اداء کرنی چاہیے، خواہ ایسی مسجد تھوڑا فاصلے ہی پر ہو اور اگر مسجد زیادہ دور ہو، تو پھر تنہا نماز پڑھنے کے مقابلے مجبوری میں بریلویوں کی مسجد ہی میں جماعت سے نماز پڑھنی چاہیے، یہی بہتر ہے ، اس میں انشاء اللہ جماعت کی فضیلت حاصل ہوجائے گی اور بعد میں نماز کے اعادہ کا حکم نہیں ہوگا (احسن الفتاوی: ۲۹۰/۳، کراچی) لیکن اگر بریلوی امام کے عقائد کفریہ یا شرکیہ ہوں، تو پھر ایسے امام کے پیچھے اقتداء درست نہیں ہوگی۔

    قال الحصکفی: ویکرہ تنزیہاً إمامة مبتدع لا یکفر بہا، وإن کفر بہا فلا یصح الاقتداء بہ أصلا وقال: صلی خلف فاسق أو مبتدع، نالَ فضلَ الجماعة، قال ابن عابدین: قولہ: نال فضل الجماعة أفاد أن الصلاة خلفہما أولی من الانفراد (الدر المختار مع ردّ المحتار: ۲/ ۲۵۸-۲۵۶، کتاب الصلاة، دار إحیاء التراث العربی) وقال الحلبی :ویکرہ تقدیم المبتدع أیضاً لأنہ فاسق من حیث الاعتقاد وہو أشد من الفسق من حیث العمل لأن الفاسق من حیث العمل یعترف بأنہ فاسق ویخاف ویستغفر بخلاف المبتدع والمراد بالمبتدع من یعتقد شیئاً علی ٰ خلاف مایعتقدہ أہل السنة والجماعة وإنما یجوز الاقتداء بہ مع الکراہة إذا لم یکن مایعتقدہ یوٴدی إلی الکفر عند أہل السنة ، أما لوکان موٴدیاً إلی الکفر ، فلا یجوز أصلاً ۔ (غنیة المستملی ، کتاب الصلاة ، الأولیٰ بالإمامة /۵۱۴، در سعادت) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند