عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 602744
غلط خواں امام کی امامت
کیا فرماتے ہیں حضراتِ علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلئہ ذیل کے بارے میں : ہمارے محلہ کی مسجد میں ایک غیر حافظ و عالم؛ مگر کسی قدر مسائل و شرائع کے جاننے والے ایک صاحب امام ہیں، قدیم طرزِ قرائت کے پڑھے ہوئے ہونے کی وجہ سے قرآنِ پاک کو بالتجوید پڑھنے سے محروم ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کہیں اشباعِ حرکت کردیتے ہیں تو کہیں حذفِ حرف، جبکہ ایسا کرنے سے بعض دفع ضمائر کے بدلنے سے معانی بدل جاتے ہیں؛ مثلاً "و وضعنا عنک وزرک" اور "و رفعنا لک ذکرک" جیسے مواقع پر الفِ مدّہ کو بالکلیہ ترک کردیتے ہیں، تو بہ جائے صیغئہ جمع متکلم کے ، جمع مؤنث غائب کی شکل بن جاتی ہے ، نیز حروف کی ادائیگی میں بھی حد درجہ متساہل ہیں؛ چنانچہ "طا" کو "تا"، "عین" کو "ہمزہ"، اور کبھی "ہمزہ" کو "عین" سے بدل دیا کرتے ہیں ۔ روکنے ٹوکنے پر اپنے قدیم طرزِ تعلم اور عدمِ تعمّد کا حوالہ دے کر معذرت کرلیتے ہیں، جب کہ امامِ اعظم رحمہ اللّٰہ کے نزدیک زلّتِ قاری کے مسئلہ میں تعمّد ضروری نہیں ہے ۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا ان کی یہ معذرت نزدِ شرع قابلِ قبول ہے ؟ اور کیا مذکورئہ بالا طریقئہ قرائت ( تغیرِ حروف، اِشباعِ حرکات اور حذفِ حروف) سے ان کی اور مقتدیوں کی نماز میں فساد واقع ہوگا؟ پھر فساد موجبِ اعادئہ صلوة ہوگا یا نہیں؟ بالدلیل جواب رقم فرماکر ممنون و مشکور فرمائیں ۔
جواب نمبر: 602744
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:532-152T/sn=7/1442
”ت“ کو ”طا“، ع کو‘’ ہمزہ“،‘’ہمزہ“ کو ”ع“ پڑھنا ، اسی طرح غیر محل میں الف بڑھا دینا یا گھٹا دیناشرعا جائز نہیں ہے ، ان حروف کو صحیح مخارج سے ادا کرنے نیز قواعد ِتجوید کی رعایت کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے کی کوشش لازم ہے ، امام صاحب کا صرف یہ کہہ دینا کہ میں قصداً ایسا نہیں کرتا یا میری تعلیم ہی ایسی ہوئی ہے کافی نہیں ہے ، امام صاحب پر ضروری ہے کہ کسی اچھے قاری سے مشق کرکے درست قرآن کریم پڑھنا سیکھیں، اگر اسی طرح غلط پڑھتے رہیں گے تو وہ گنہ گار ہوں گے ، نیز مقتدیوں کی نماز(معنی میں تغیرِ فاحش ہونے کی صورت میں) فاسد ہوسکتی ہے گو علی الاطلاق فسادِ صلاة کا حکم نہ ہو۔دیکھیں:امداد الفتاوی( 1/214، ط: کراچی، سوال:220)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند