• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 602515

    عنوان:

    مغرب میں اذان کے بعد پانچ منٹ کی تاخیر کرنا؟

    سوال:

    حضرت مفتی صاحب ہماری دکان بازار میں ہے اور بازار میں مسجد بھی ہے مسجد کے ذمہ داران دوکانداروں اور بازار میں آیٴے ہوئے لوگوں کی جماعت نہ چھوٹ جائے اذان ہونے کے بعد پانچ منٹ تاخیر سے جماعت کرتے ہیں۔ کیا یہ تاخیر درست ہے ۔ آیا ہم کتنی تاخیر سے جماعت کر سکتے ہیں۔اور مغرب کا مکروہ وقت کب شروع ہوتا ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 602515

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:467-81T/N=6/1442

     (۱): بازار کے دکان داروں اور بازار میں آئے ہوئے لوگوں کی رعایت میں روزانہ مغرب میں اذان کے بعد پانچ منٹ کی تاخیر کرنا کراہت سے خالی نہیں، لوگوں کو چاہیے کہ اگر وہ پہلے سے باوضو ہوں تو اذان شروع ہوتے ہی مسجد پہنچ جایا کریں اور اگر پہلے سے باوضو نہ ہوں تو آفتاب غروب ہوتے ہی مسجد پہنچ جائیں؛ تاکہ اذان ختم ہونے تک وضو سے فارغ ہوجائیں اور تکبیر اولی کے ساتھ جماعت میں شرکت ہو، اور آج کل تقریباً ہر ایک کے پاس موبائل میں گھڑی ہوتی ہے اور غروب آفتاب میں روزانہ یا دو چار دن میں عام طور پر صرف ایک آدھ منٹ کا فرق ہوتا ہے؛اس لیے یہ کچھ مشکل بھی نہیں ہے۔

    خلاصہ یہ کہ عام مساجد کی طرح بازار کی مسجد میں بھی اذان کے بعد معمولی وقفہ سے اقامت شروع کردینی چاہیے، اذان اور جماعت میں زیادہ وقفہ نہیں ہونا چاہیے۔

    (۲، ۳): مغرب کی نمازمیں تعجیل مستحب ہے ، یعنی: جب سورج یقینی طور پر غروب ہوجائے تو اذان کہی جائے، پھر صرف تین چھوٹی آیتوں یا ایک بڑی آیت کے بہ قدر وقفے سے اقامت شروع کردی جائے، حضرت مولانا مفتی محمد عزیر الرحمن صاحب دیوبندی (مفتی اول دار العلوم دیوبند) نے ایک فتوے میں فرمایا :” چھوٹی تین آیتیں آدھے منٹ سے بھی کم میں پڑھ سکتے ہیں“ (فتاوی دار العلوم دیوبند، ۲: ۳۹، سوال: ۲۵، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) اور بلا عذر ومجبوری ۲/ منٹ یا اس سے زیادہ تاخیر مکروہ تنزیہی ہے اور ستارے اچھی طرح ظاہر ہوجانے تک (بلا عذر ومجبوری) تاخیر کرنا مکروہ تحریمی ہے۔

    قلت:وتکرہ أن یوٴخرھا إذا غابت الشمس؟ قال: نعم (کتاب الأصل، ۱: ۱۲۳،ط: مصر)۔

    قلت:أرأیت المغرب أیوٴخرھا بعد غروب الشمس شیئاً؟ قال: أکرہ لہ أن یوٴخرھا إذا غربت الشمس، والشتاء والصیف سواء (المصدر السابق، ص: ۱۲۴)۔

    فأما صلاة المغرب فالمستحب تعجیلھا في کل وقت، وقد بینا أن تأخیرھا مکروہ، وکان عیسی بن أبان رحمہ اللہ تعالی یقول: الأولی تعجیلھا للآثار ولکن لا یکرہ التأخیر مطلقاً ألا تری إلخ (المبسوط للسرخسي، ۱: ۱۴۷، ط: دارالمعرفة، بیروت)۔

    وبہ نقول: إنہ یکرہ تأخیر المغرب بعد غروب الشمس إلا بقدر ما یستبریٴ فیہ الغروب رواہ الحسن عن أبي حنیفة رحمھا اللہ تعالی لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا تزال أمتي بخیر ما عجلوا المغرب وأخروا العشاء إلخ (المصدر السابق ص: ۱۴۴)۔

    تاخیر المغرب مکروہ إلا بعذر السفر أو بأن کان علی المائدة، البدایة بصلاة المغرب أولی من صلاة الجنازة (الفتاوی السراجیة، ص: ۵۷، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)۔

    وتأخیرہ قدر رکعتین یکرہ تنزیھا (سکب الأنھر مع المجمع، ۱: ۲۹، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت)۔

    ومثلہ فی الدر المختار (مع رد المحتار، ۲:۲۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    وفی الحلبة بعد کلام: والظاھر أن السنة فعل المغرب فوراً إلخ (رد المحتار، ۲: ۲۷)۔

    إلا فی المغرب فیسکت قائماً قدر ثلاث آیات قصار( الدر المختار مع رد المحتار، ۲:۵۶)۔

    ویستحب تعجیل صلاة المغرب صیفاً وشتاء ولا یفصل بین الأذان والإقامة فیہ إلا بقدر ثلاث آیات أو جلسة خفیفة لصلاة جبریل علیہ السلام بالنبي صلی اللہ علیہ وسلم بأول الوقت فی الیومین إلخ (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي علیہ، ص: ۱۸۳، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔

    قولہ: ”ولا یفصل بین الأذان والإقامة الخ“: ولو بمقدار صلاة رکعتین کرہ ککراھة صلاة رکعتین قبلھا، وما فی القنیة من استثناء القلیل یحمل علی ما ھو الأقل من قدرھما توفیقاً بین کلامھم کما فی النھر عن الفتح (حاشیة الطحطاوي علی المراقي)، وانظر تبیین الحقائق (۱: ۸۴، ط: المکتبة الإمدادیة، ملتان) وفتح القدیر (۱: ۳۱۸، ط: مصر) وغیرھما من کتب المذھب وفتاوی دار العلوم دیوبند (۲: ۳۷- ۳۹، رقم السوٴال:۲۵، ط: مکتبة دار العلوم دیوبند) أیضاً۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند