• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 602448

    عنوان:

    مقتدی اللہ اکبر کب کہے ؟ مسبوق بقیہ نماز کے لئے كب کھڑا ہو؟

    سوال:

    سوال : مجھے کسی نے بتایا ہے کہ امام کے اللہ اکبر کے ر کہنے سے پہلے اگر کسی اللہ اکبر کہہ دیا تو اس کی نماز نہیں ہوگی․ اس علاوہ یہ بھی بتایا ہے کہ اگر امام کے السلام علیکم کہنے سے پہلے اگر کسی نے السلام علیکم کہہ دیا تو اس کی نماز نہیں ہوگی․ 1.کیا امام کے اللہ اکبر کہنے کے بعد اللہ اکبر کہنا چاہئے ․ کیا اس کو تکبیر اولی کے ملنے میں شمار کیا جائے گا؟

    (۲) کچھ لوگ امام کے السلام علیکم کہنے کے بعد سلام پھیرنا شروع کرتے ہیں․ صحیح طریقہ کیا ہے ؟

    (۳) اگر جماعت میں دیر سے آئے ہوں اور باقی نماز پوری کرنے کے لئے کھڑے ہوں تو کھڑے ہوتے وقت اللہ اکبر دوسرے سلام کے دوران بولنا چاہئے یا دوسرے سلام کے بعد؟

    جواب نمبر: 602448

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:475-142T/sn=6/1442

     (1) جس کسی نے آپ کومسئلہ بتلایا ہے ،صحیح بتلایا ہے ، اگر مقتدی تکبیر تحریمہ کہتے وقت امام کے ”اللہ اکبر“ سے پہلے اپنی تکبیر ختم کردے تو اس کی نماز نہ ہوگی؛ اس لئے مقتدی کو چاہئے کہ امام کی تکبیر کے بعد اپنی تکبیر مکمل کرے ؛ تاکہ اقتدا درست ہو۔

    (وعن سبق تکبیر) علی النیة خلافا للکرخی کما مر ، أو سبق المقتدی الإمام بہ ، فلو فرغ منہ قبل فراغ إمامہ لم یصح شروعہ، والأول أولی لما مر فی توجیہ قولہ إتباع الإمام (الدرالمختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 143، باب صفة الصلاة، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند، الہند )

    (2) صحیح طریقہ یہ ہے کہ امام جب سلام پھیرنا شروع کرے تو مقتدی بھی شروع کرے ؛ باقی ختم یا تو ساتھ ساتھ کرے یا پھر امام کے بعد کرے ،جو شخص امام کے لفظ ”السلام“کہنے سے پہلے اپنا لفظ ”السلام“ مکمل کرلے تو اگر اس نے سہواً یا کسی عذر کی بنا پر ایسا کیا ہے تب تو اس کی نماز بلا کراہت ادا ہوگئی ، اگر بلاعذر ایسا کیا ہے تو متابعت امام (جو کہ واجب ہے )کے ترک کی وجہ سے اس کی نماز کراہت کے ساتھ ادا ہوگی۔

    و" یسن "مقارنتہ" أی سلام المقتدی "لسلام الإمام" عند الإمام موافقة لہ وبعد تسلیمہ عندہما لئلا یسرع بأمور الدنیا "و" یسن "البدائة بالیمین" وقد بیناہ حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح ص: 276)

    ...(ولہا واجبات) لاتفسد بترکہا وتعاد وجوبا فی العمد...(ولفظ السلام) مرتین فالثانی واجب علی الأصح برہان ، دون علیکم إلخ (المصدر السابق:2/ 146،ط: زکریا ، دیوبند)...ولوأتمہ قبل إمامہ فتکلم جاز وکرہ. (قولہ لو أتمہ إلخ) أی لو أتم المؤتم التشہد ، بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتی بما یخرجہ من الصلاة کسلام أو کلام أو قیام جاز: أی صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الأرکان لأن الإمام وإن لم یکن أتم التشہد ؛ لکنہ قعد قدرہ لأن المفروض من القعدة قدر أسرع ما یکون من قرائة التشہد وقد حصل ، وإنما کرہ للمؤتم ذلک لترکہ متابعة الإمام بلا عذر، فلو بہ کخوف حدث أو خروج وقت جمعة أو مرور مار بین یدیہ فلا کراہة کما سیأتی قبیل باب الاستخلاف.[الدر المختار وحاشیة ابن عابدین:2/ 240،مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند، الہند) نیز دیکھیں: (احسن الفتاوی 2/93)۔

    (3) دوسرے سلام کے بعد مسبوق کو تکبیر کہ کر مابقیہ نماز کی ادائیگی کے لئے کھڑا ہونا چاہئے ؛تاکہ یہ یقینی ہوجائے کہ امام صاحب پر سجدہ سہو نہیں ہے۔

    "و" یسن "انتظار المسبوق فراغ الإمام" لوجوب المتابعة حتی یعلم أن لا سہو علیہ.، قولہ: "ویسن إنتظار المسبوق فراغ الإمام" أی من تسلیمہ المرتین، قولہ: "لوجوب المتابعة" فإن قام قبلہ کرہ تحریما.[حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح ص: 276،مطبوعة: المکتبة الأشرفیة دیوبند، الہند)

    وینبغی أن یصبر حتی یفہم أنہ لا سہو علی الإمام،(الدر المختار) (قولہ وینبغی أن یصبر) أی لا یقوم بعد التسلیمة أو التسلیمتین، بل ینتظر فراغ الإمام بعدہما ،کما فی الفیض والفتح والبحر. قال الزندویستی فی النظم : یمکث حتی یقوم الإمام إلی تطوعہ أو یستند إلی المحراب إن کان لا تطوع بعدہا. اہ. قال فی الحلیة: ولیس ہذا بلازم، بل المقصود ما یفہم أن لا سہو علی الإمام أو یوجد لہ ما یقطع حرمة الصلاة. اہ․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 348، باب الإمامة، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند، الہند )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند