• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 602377

    عنوان:

    دوران سفر كسی جگہ پندرہ دنوں كی نیت كیے بغیر زیادہ دنوں تك ٹھہرجائے تو كیا حكم ہے؟

    سوال:

    (۱) میں نے شرعی مسافت طے کرکے ایک جگہ 16 دن قیام کیا اور میری نیت 14 دن یا اس سے کم کی تھی لیکن میں وہاں بغیر کسی کام کے ٹھہرتے ٹھہرتے 17 دن ٹھہر گیا،اور میں نے 15,16,17 ویں دن قصر نماز پڑھی توکیا میرا یہ عمل درست تھا؟

    (۲) جب میں پہلے دن اس سفر پر گیا تو میں میرے شہر میں تھا اور سواری پرسوار ہوگیا تھا اور ظہر کا وقت شروع ہوگیا تھا،تو کیا مجھے ظہر کی نماز قصر پڑھنی ہوگی یا پوری؟

    (۳) اور جب میں اس سفر سے واپس آرہا تھا تو راستے میں ایک گاؤں آیا جہاں سے میرا شہر 25 کلو میٹر دور ہے جب میں وہاں پہنچا تو عشاء کا وقت شروع ہوگیا تھا،تو کیا مجھے عشاء کی نماز قصر پڑھنی ہوگی یا پوری؟

    (۴) الحمدللہ یہ تو معلوم ہے کہ مغرب چاہے حضر میں ہو یا سفر میں تین ہی پڑھنی پڑتی ہے ،پوچھنا یہ تھا کہ سفر میں مغرب اور بقیہ چاروں نمازوں کی نیّت کس طرح کی جائے گی؟

    جواب نمبر: 602377

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:455-373/L=6/1442

     (۱) مذکورہ بالا صورت میں اگر آپ نے ابتداء وہاں قطعی طور پر پندرہ دن رہنے کی نیت نہیں کی تھی بلکہ چودہ دن رہنے کا ارادہ تھا ؛لیکن بغیر نیت کے ٹھرتے ٹھہرتے /۱۷دن ٹھہر گئے تھے تو ایسی صورت میں آپ مقیم نہیں ہوئے تھے ؛بلکہ مسافر ہی رہے تھے ؛لہذا ان ایام میں قصر نماز پڑھنا آپ کے لیے درست تھا ،آپ نے صحیح کیا ۔

    وإن نوی الإقامة أقل من خمسة عشر یوما قصر، ہکذا فی الہدایة.ولو بقی فی المصر سنین علی عزم أنہ إذا قضی حاجتہ یخرج ولم ینو الإقامة خمسة عشر یوما قصر، کذا فی التہذیب․ (الفتاوی الہندیة 1/ 139)

    (۲) اگر شہر میں رہتے ہوئے آپ نماز پڑھتے ہیں تو پوری نماز پڑھیں گے اور اگر فناء شہر سے نکلنے کے بعد نماز ادا کرتے ہیں اور وقت ظہر باقی ہے تو قصر کریں گے خواہ آپ ابتداء وقت میں شہر میں رہے ہوں،اور اگر وقت نکلنے کے بعد نماز ادا کرتے ہیں تو آخری وقت کا اعتبار ہوگا یعنی ظہر کے آخری وقت میں اگر آپ شہر یا فناء شہر میں تھے تو پوری نماز قضا کریں گے اور اگر شہر سے نکل گئے تھے تو قصر نماز قضاکریں گے ۔

    (والمعتبر فی تغییر الفرض آخر الوقت) وہو قدر ما یسع التحریمة (فإن کان) المکلف (فی آخرہ مسافرا وجب رکعتان وإلا فأربع) لأنہ المعتبر فی السببیة عند عدم الأداء قبلہ․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 131)

    (۳) آدمی جب تک اپنے شہر کے حدود یا فناء میں نہ داخل ہوجائے اس وقت تک مسافر رہتا ہے ؛لہذا اگر آپ واپسی میں اپنے شہر سے /۲۵کلو میٹر دور گاؤں میں نماز ادا کرتے ہیں تو قصر کریں گے ۔

    وکذا إذا عاد من سفرہ إلی مصرہ لم یتم حتی یدخل العمران.[الفتاوی الہندیة 1/ 139)

    (4) دیگر ایام کی طرح سفر میں بھی بس اس قدر دل میں استحضار کرلینا کہ میں فلاں نماز پڑھنے جارہاہوں کافی ہے ،رکعات کی تعداد کی نیت کرنا لازم نہیں اور اگر کوئی اس میں غلطی بھی کرجائے تو اس سے نمازکے فساد وغیرہ کا حکم عائد نہ ہوگا ۔

    الخطأ فیما لا یشترط التعیین لہ لا یضر کتعیین مکان الصلاة وزمانہا وعدد الرکعات فلو عین عدد رکعات ثلاثا أو خمسا صح لأن التعیین لیس بشرط فالخطأ فیہ لا یضرہ قال فی النہایة ونیة عدد الرکعات والسجدات لیست بشرط ولو نوی الظہر ثلاثا وخمسا صحت وتلغو نیة التعیین․ (الأشباہ والنظائر لابن نجیم ص: 29)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند