• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 602167

    عنوان:

    کسی مسلمان کومسجد میں آنے سے روکنا

    سوال:

    عرض گذارش ہے کہ مندرجہ ذیل امر میں شرعی حکم مطلوب ہے ۔ رہنمائی فرمائے زید اور عمرو کے درمیان آپسی رنجش تھی زید نے ایک مسجد کے افتتاح میں مسجد کے متولیان سے کہا کہ کی افتتاح سے پہلے مشورے میں یہ بات رکھی کی افتتاح میں کھانے کا انتظام میں کرتا ہوں اس شرط پر کی عمرو کو مسجد میں نہ آنے دیا جائے اب بکر کہتا ہے کہ اس مسجد میں نماز صحیح نہیں ہے مکرو ہے اور دلیل یہ دیتا ہے کہ اس مسجد میں کوئی امام نہیں اور مشورے میں شریک ہونے والے متواللیان ہی نماز کی امامت کرتے ہیں اور زید اور باقی متولیان نے مسجد میں اپنے مفاد کے لیے مسلمان کو مسجد سے روکا جو کی حرام اور گناہ کبیرہ ہے نیز تذلیل مسلم اور مسجد میں ذاتی جھگڑا داخل کر کے فتنہ پیدا کیا لہٰذا جب تک توبہ نہ کرے ان کے پیچھے نماز مکروہ ہے عمرو کا یہ موقف درست ہے یا عمرو اپنے موقف میں غلط ہے ؟

    جواب نمبر: 602167

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:416-123T/sn=6/1442

    اگر متولی نے فی الواقع بکر کو مسجد میں آنے سے روکنے کی شرط پر زید کی بات قبول کی ہے تو اس نے بڑی غلطی کی ہے ، متولی کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی مسلمان کو بغیر عذر شرعی کے مسجد میں آنے سے روکے ، متولی کو چاہئے کہ اس عمل سے توبہ واستغفار کرے جب تک وہ توبہ نہ کرے اس کے پیچھے نماز مکروہ ہوگی۔

    قولہ (ومن أظلم ممن منع مساجد اللہ أن یذکر فیہا اسمہ) والمنع یکون من وجہین أحدہما بالقہر والغلبة والآخر الاعتقاد والدیانة والحکم لأن من اعتقد من جہة الدیانة المنع من ذکر اللہ فی المساجد فجائز أن یقال فیہ قد منع مسجدا أن یذکر فیہ اسمہ فیکون المنع ہاہنا معناہ الحظر کما جائز أن یقال منع اللہ الکافرین من الکفر والعصاة من المعاصی بأن حظرہا علیہم و أوعدہم علی فعلہا فلما کان اللفظ منتظما للأمرین وجب استعمالہ علی الاحتمالین․ (أحکام القرآن للجصاص ت قمحاوی 1/ 75)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند