• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 602147

    عنوان:

    اگر ایسے وقت میں بیدار ہو کہ اتنا وقت نہ بچا ہو کہ وضو کرکے فرض ادا کرسکے تووہ كیا كرے؟

    سوال:

    فجر کی نماز کے لیے نیند سے آنکھ کھلی تو صرف ایک منٹ وقت بچا تھا اب وقت اتنا نہیں بچا کے وضو کریں اور نماز ادا کرے ایسی حالت میں کیا وضو کرکے بنا قضاء کے نیت کیئے پوری کر لیں مفتی تقی عثمانی کے ایک بیان میں سنا تھا فرض نماز جب انکھلی تو پڑھ لیں مکرو وقت کا کوئی قید نہیں https://youtu.be/uWY_x4R28Mc صحیح مسلم کتاب: مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کا بیان باب: فوت شدہ نمازوں کی قضاء اور ان کو جلد پڑھنے کے استحباب کے بیان میں حدیث نمبر: 1566 حَدَّثَنَا ہَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ نَسِیَ صَلَاةً فَلْیُصَلِّہَا إِذَا ذَکَرَہَا لَا کَفَّارَةَ لَہَا إِلَّا ذَلِکَ قَالَ قَتَادَةُ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِکْرِی ترجمہ: ہداب بن خالد، ہمام، قتادہ، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے جب اسے یاد آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں حضرت قتادہ (رض) نے (وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِکْرِی) پڑھی۔

    جواب نمبر: 602147

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:423-51T/L=6/1442

     اگر آدمی فجر کے وقت ایسے وقت میں بیدار ہو کہ اتنا وقت نہ بچا ہو کہ وضو کرکے فرض ادا کرسکے تو اس کو چاہیے کہ توقف کرے اور جب مکروہ وقت گزرجائے تب نماز ادا کرے ،اگر اس نے نماز شروع کردی اور مکروہ وقت داخل ہوگیا تو نماز فاسد ہوجائے گی اور جس حدیث کو آپ نے ذکر کیا وہ عام نہیں ہے بلکہ اوقاتِ مکروہہ اس سے مستثنی ہیں سوائے اسی دن کی عصر کے ۔ (من نسی صلاة فلیصلہا إذا ذکرہا ) فإن اللہ عز وجل یقول : (وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِکْرِی) (طہ:14) قال محمد وبہذ انأخذ إلا أن یذکرہا فی الساعة التی نہی رسول اللہ ﷺ عن الصلاة فیہا حین تطلع الشمس حتی ترتفع وتبیض ،ونصف النہار حتی تزول ،وحین تحمر الشمس حتی تغیب إلا عصر یومہ ...وہو قول أبی حنیفة رحمہ اللہ .(اعلاء السنن :/۵ ۱۲، طلوع الشمس أثناء الصلاة یفسدہا ) وقال : قلت قولہ فی أثر ابن عباس :فمن غفل عنہا فلا یصلین حتی تطلع وتذہب قرونہا دلیل علی بطلان الصلاة وفسادہا وقت الطلوع وإلا لم یمنعہ عن أدائہا ولم یأمر بالتاخیر مع وجوب القضاء علی الفور . (اعلاء السنن :۵5/15-16، طلوع الشمس أثناء الصلاة یفسدہا ) (ولنا) حدیث لیلة التعریس فإن النبی - صلی اللہ علیہ وسلم - لما نزل آخر اللیل قال من یکلؤنا اللیلة فقال بلال أنا فناموا فما أیقظہم إلا حر الشمس وفی روایة انتبہوا وقد بدا حاجب الشمس فقال - علیہ الصلاة والسلام - لبلال أین ما وعدتنا قال ذہب بنفسی الذی ذہب بنفوسکم فقال رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - أرواحنا بید اللہ تعالی وأمرہم فانتقلوا عن ذلک الوادی ثم نزلوا فأوتر رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - ثم أذن بلال فصلی رکعتی الفجر ثم قام فصلی بہم قضاء وإنما انتقل من ذلک الوادی؛ لأنہ تشائم والأصح أنہ أراد أن ترتفع الشمس فلو جاز الفجر المکتوبة فی حال طلوع الشمس لما أخر بعد الانتباہ والآثار المرویة فی النہی عامة فی جنس الصلوات وبہا یثبت تخصیص ہذہ الأوقات من الحدیث الذی رواہ الخصم.[المبسوط للسرخسی 1/ 151)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند