• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 601971

    عنوان:

    نماز میں لقمہ دینے کاحکم

    سوال:

    مسلک احناف میں مقتدی کاامام کولقمہ دینے کاطریقہ کیاہے ؟اوراس کے کیااحکامات ہیں تفصیل سے جواب مطلوب ہے ۔

    جواب نمبر: 601971

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:371-87T/sn=8/1442

     نماز میں لقمہ لینے اور دینے سے متعلق شرعی حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ امام اگر اتنی مقدار پڑھنے کے بعد اٹکا ہے کہ جس کے بعد رکوع کردینا مناسب تھا ، تب تو امام کو رکوع کردینا چاہیے اور اگر اتنی مقدار سے پہلے ہی اٹک گیا تو اس کو چاہیے کہ دوسری سورت جو یاد ہو پڑھ دے، وہیں اٹکا نہ رہے ، امام کے لیے اسی اٹکی ہوئی جگہ کو بار بار پڑھنا مکروہ ہے اور مقتدی کو چاہیے کہ لقمہ دینے میں جلدی نہ کرے بلکہ توقف کرے کہ شاید امام رکوع کردے یا دوسری سورت پڑھ دے یا خود ہی اٹکی ہوئی جگہ کو نکال کر صحیح پڑھ لے ، جلدی لقمہ دینا مقتدی کے حق میں مکروہ ہے، جب امام نہ رکوع کرے نہ دوسری سورت پڑھے اور نہ خود نکل پائے تو لقمہ دیدے خواہ تین آیت پڑھ چکا ہو یا اس سے کم ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: فتاوی محمودیہ: ۳۸/۱۱، میرٹھ) اور اگر امام قراء ت کے علاوہ میں بھول جائے تو سبحان اللہ کہہ کر لقمہ دینا چاہیے؛ البتہ اگر امام دو رکعت پر بیٹھنے کے بجائے کھڑا ہوگیا، تو اب اس کو یاد نہ دلائے ۔ (فتاوی محمودیہ: ۴۱/۱۱، میرٹھ)

    قال الطحطاوی: ویکرہ للمقتدی أن یعجل بالفتح لأن الإمام ربما یتذکر فیکون التلقین من غیر حاجة ویکرہ للإمام أن یلجئہم إلیہ بأن یقف ساکنا بعد الحصر أو یکرر الآیة بل ینتقل إلی آیة أخری أو یرکع أن قرأ القدر المستحب وقیل قدر الفرض والأول ہو الظاہر۔ (حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح: ۳۳۴/۱، دار الکتب العلمیة، بیروت) ینبغی للمقتدی أن لایعجل بالفتح ؛ إذ ربما یتذکر الإمام فیکون التلقین بلا حاجة ، وللإمام أن لایلجئہم الیہ ،بل یرکع إذا قرأ قدر الفرض ،وإلا انتقل إلی آیة اُخری ۔ (دردالحکام ، کتاب الصلوٰة: ۱/ ۱۰۳)

    لقمہ سے متعلق مزیدجزئیات دیکھیے: علم الفقہ،ص: ۲۴۹، نعیمیہ، دیوبند) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند