• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 601646

    عنوان:

    كیا امام كا مقتدیوں كی صف سے بالكل متصل ہونا ضروری ہے؟

    سوال:

    عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ مسجدوں میں امام صاحب کا مصلیٰ مقتدیوں کی صف سے جوڈ کر بچھایا جاتا ہے۔ ہمارے علاقے کی مسجد کے "سابق امام صاحب مرحوم" بھی ہمیشہ اسی طرز پر اپنا مصلّیٰ مقتدیوں کی صف سے جوڈ کر بچھاتے تھے اور طویل عرصہ تک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے۔ میرے والد صاحب مرحوم نے بھی اسی طرز پر محلے کی دوسری مسجد میں تقریباً ۴۰برس امامت کی اور مصلّی مقتدیوں کی صف سے ملا کر بچھانے کی تاکید فرماتے تھے۔ سابق امام صاحب کی وفات کے بعد اب جو صاحب امام مقرر کےٴ گے ہیں وہ اپنا مصلّیٰ مقتدیوں کی صف سے ایک دو بالشت اوپر بچھانا چاہتے ہیں اور عزر پیش کرتے ہیں کہ سجدے سے قیام کو جانے کے دوران مقتدی ?سے طکرا جانے کا خدشہ ہوتا ہے یا کبھی طکرا بھی جاتا ہوں۔

    برائے مہربانی فقہی اعتبار سے اس معاملے میں وضاہت فرما دیں کہ کیا امام کا مصلّیٰ مقتدیوں کی صف سے ایک دو بالشت اوپر فاصلے پر بچھایا جا سکتا ہے؟ اس معاملے میں علمائے کرام کی کیا رائے ہے؟

    جواب نمبر: 601646

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:308-227/N=5/1442

     امام کا مُصلّٰی (جائے نماز)، مقتدیوں کی صف سے بالکل متصل ہونا لازم وضروری نہیں ہے؛ بلکہ اگر ایک، آدھ بالشت یا دو بالشت آگے ہو تب بھی مقتدیوں کی اقتدا بلا شبہ صحیح ودرست رہے گی؛ لہٰذا اگر آپ کے محلے کی مسجد کے امام صاحب کا مُصلّٰی، مقتدیوں کی پہلی صف سے ایک، دو بالشت آگے رہتا ہے تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے بالخصوص جب کہ امام کو سجدے سے قیام کی طرف واپس جانے میں مقتدی کے سر سے ٹکرانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

    (صلی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم في حجرتہ، والناس یأتمون بہ من وراء الحجرة) ومذھب الحنفیة في ھذہ المسألة أن اقتداء الصحابة رضي اللّٰہ عنھم برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صحیح سواء کان المراد من الحجرة حجرة بعض أزواجہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو حجرة الحصیر التي احتجرھا في المسجد؛ فإن کان المراد بالحجرة حجرة الحصیر فوجہ الصحة ظاھر إلخ (بذل المجھود، کتاب الصلاة، باب الرجل یأتم بالإمام وبینھما جدار، ۵: ۱۹۰، ت: الدکتور تقي الدین الندوي، ط: مظفر فور، اعظم جراہ)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند