• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 601494

    عنوان: كیا سخت سردی ترك جماعت كے لیے عذر ہے؟

    سوال:

    ایک مسجد میں دو امام ہے، جن میں سے امام ثانی کے ذمہ ظہر اور مغرب کی امامت ہے، وہ فجر کی نماز میں شرکت نہیں کرتے، ان سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ مجھے نزلہ زکام کی ایلرجی ہے، صبح کی ٹھنڈی ہوا سے مجھے نزلے زکام کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے اس لیے میں فخر کی نماز اپنے گھر پر ہی ادا کر لیتا ہوں. متعدد مصلیان ان کے اس فعل سے ناراض ہے اور ان کے خلاف لوگوں سے چرچہ کرتے ہیں، نیز یہ بھی بات چلائی جاتی ہیں کہ ان امام صاحب کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے. اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ 1) امام صاحب کا عذر جماعت کے ترک کرنے کے لیے کافی ہے یا نہیں؟ 2)مصلیان کا اس طرح چرچہ اور تبصرہ کرنا نیز ان کو امامت سے برخواست کرنے کی کوشش کرنا کیسا ہے. بینوا توجروا.

    جواب نمبر: 601494

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 272-211/D=05/1442

     (۱) جن اعذار کی بنا پر ترک جماعت جائز ہے یا جماعت میں شریک ہونا واجب نہیں رہتا فقہاء کرام نے انھیں سردی کا سخت ہونا کہ باہر نکلنے یا مسجد تک جانے میں کسی بیماری کے پیدا ہو جانے کا یا بڑھ جانے کا خوف ہو، اسی طرح مطلقا بیماری جس میں باہر نکلنا سخت مضر ہو؛ کو بھی شمار کیا ہے۔ قال فی الدر: فلا تجب علی مریض ومقعد وزمن ․․․․․․․ ولا علی من حال بینہ وبینہا مطر وطین وبرد شدید وظلمة کذلک (الدر مع الرد: 1/411، کوئٹہ)

    پس امام ثانی کو ایسا ہی کوئی عذر ہو اور انھیں ضرر شدید میں مبتلا ہو جانے کا ڈر ہو خواہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر یا کسی حاذق طبیب مسلمان کے کہنے کی بنیاد پر ایسے اندیشہ کی صورت میں ان کے لئے ترک جماعت کی گنجائش ہوگی اور یہ ترک جماعت کا عذر ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس قسم کے ضرر کا اندیشہ نہ ہو اور احتیاطی تدابیر کے ذریعہ تدارک کیا جاسکتا ہے تو پھر محض کسل مندی سے ترک جماعت کرنا مناسب نہیں کہ یہ بڑے ثواب سے محرومی بلکہ ترک جماعت کا گناہ ہونے کا مستوجب ہوگا اور لوگوں کو بدگمانی کا موقعہ ملے گا۔

    (۲) کسی سے بدگمانی کرنا سخت گناہ ہے امام ثانی اپنے کو معذور ظاہر کر رہے ہیں تو انھیں اپنی بات میں سچا سمجھنا چاہئے نامناسب تبصرے کرنا یا بدگمانی کرنا ہرگز جائز نہیں۔

    دو امام رکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ بروقت امام مقرر کو کوئی عذر پیش آجائے تو امام ثانی نماز پڑھا سکے، لہٰذا عام حالات میں اسے بھی موجود ہی رہنا چاہئے بالکلیہ غائب نہ ہو اگر ایسی بات ہو تو پھر اس پہلو کو امام ثانی کے سامنے ظاہر کر دیا جائے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری محسوس کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند