• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 601311

    عنوان:

    جو آدمی كسی دوسری جگہ بود وباش اختیار كرلے وہ اپنے آبائی وطن پہنچ كر نماز پوری پڑھے گا یا قصر كرے كا؟

    سوال:

    میں لاہور میں رہتا ہوں اور میرا آبائی گھر راوالپنڈی میں ہے۔ لاہور میں بھی میرا ذاتی گھر ہے میں مہینے بعد راوالپنڈی جاتا ہوں کیا میں وہاں قصر نماز پڑہوں گا؟

    جواب نمبر: 601311

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:328-330/L=5/1442

     مذکورہ بالا صورت میں اگر آپ نے راؤلپنڈی کو بالکلیہ ترک نہیں کیا ہے تو راؤلپنڈی جانے کی صورت میں آپ وہاں اِتمام کریں گے ،قصر نہیں کریں گے۔

    والوطن الاصلی ہو وطن الانسان فی بلدتہ أو بلدة اخری اتخذہا دارا وتوطن بہا مع اہلہ وولدہ،ولیس من قصدہ الارتحال عہنا،بل التعیش بہا،وہذاالوطن یبطل بمثلہ لا غیر وہو ان یتوطن فی بلدة اخری وینقل الاہل الیہا فیخرج الاول من ان یکون وطنا اصلیا حتی لو دخلہ مسافرا لا یتم،قیدنا بکونہ انتقل عن الاول باہلہ؛لانہ لو لم ینتقل بہم، ولکنہ استحدث اہلا فی بلدة اخری فان الاول لم یبطل ویتم فیہما (البحرالرائق شرح کنز الدقائق:۵/ ۵۱۱) ویبطل وطن الاقامة بمثلہ وبالوطن الاصلی وبانشاء السفر،والاصل ان الشیء یبطل بمثلہ وبما فوقہ لا بما دونہ(در مختار وحاشیة ابن عابدین(رد المحتار) /۲ 414، 415/ ط زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند