• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 601132

    عنوان:

    دورانِ نماز پائینچے یا آستین موڑنے کا حکم

    سوال:

    اکثر لوگ ہماری مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں جو کہ پینٹ پہنے رہتے ہیں اور وہ پینٹ ٹخنے سے نیچے رہتے ہیں جن کو وہ حالتِ نماز میں ٹخنوں سے اوپر کرلیتے ہیں، تو کیا اس طرح کر موڑ لینے سے نماز میں کسی طرح کی کراہت آئیگی؟

    دوسرا سوال یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے کرتے کی آستین پہنچو سے بڑھی ہوئی رہتی ہے ،ہاتھ کے ظاہری حصے تک جہاں سے انگلیوں کا جوڑ شروع ہوتا ہے ،تو کیا ایسا کرنا بھی کراہت سے خالی نہیں؟

    جواب نمبر: 601132

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:200-130/N=4/1442

     (۱): ہر مسلمان مرد کو ایسا لباس پہننا چاہیے جس میں اوپر سے آنے والے لباس سے ٹخنے نہ ڈھکیں،یعنی: کرتا، پائجامہ اور لنگی وغیرہ ٹخنے سے اوپر رہے، ٹخنے سے نیچے نہ ہو؛ کیوں کہ کرتا یا پائجامہ وغیرہ ٹخنے سے نیچے لٹکانا ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے، متعدد احادیث میں اس پر وعید آئی ہے۔ اور اگر کسی کا پائجامہ وغیرہ ٹخنے سے نیچے ہو تو کم از کم نماز میں ضرور اونچا کرلینا چاہیے خواہ پائینچے موڑکر یا نیفے کے پاس کپڑا کا کچھ حصہ موڑکر تاکہ نماز ناقص نہ ہو اور اس پر مکمل ثواب حاصل ہو، یہ پائجامہ وغیرہ ٹخنے سے اوپر کرنے کے لیے پائینچے موڑنا یا نیفے کے پاس کپڑے کا کچھ حصہ موڑنا مکروہ نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ اُس کف ثوب (کپڑا سمیٹنے) میں داخل نہیں، جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے؛ کیوں کہ ممنوع کف ثوب وہ ہے، جس میں کپڑے کو معتاد حد سے سمیٹا جائے، جیسے: آستین موڑ کر پہنچے سے اوپر کرکے نماز پڑھنا۔ اور اگرکوئی کپڑا معتاد حد سے یا شرعی حد سے آگے بڑھا ہوا ہو تو اُسے سمیٹنا یا موڑنا ممنوع وناجائز نہیں ہے جیسا کہ شروح حدیث کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے۔

    (۲): اگر کسی کی آستین پہنچے سے آگے ہوں تو اُنھیں موڑنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر صرف پہنچے تک موڑلی جائیں تو یہ مکروہ وممنوع نہیں؛ البتہ پہنچے سے اوپر نہ موڑی جائیں۔

    عن ابن عباس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ”أمرت أن أسجد علی سبعة أعظم ولا أکف ثوباً ولا شعراً“ (الصحیح لمسلم ۱: ۱۹۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    (و)کرہ (کفہ) أي: رفعہ ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، ۲: ۴۰۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۴: ۱۳۷، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ:”کمشمر کم أو ذیل“:أي: کما لو دخل فی الصلاة وھو مشمر کمہ أو ذیلہ، وأشار بذلک إلی أن الکراھة لا تختص بالکف وھو فی الصلاة کما أفادہ في شرح المنیة (رد المحتار)۔

    وقید الکراھة في الخلاصہ والمنیة بأن یکون رافعاً کمیہ إلی المرفقین، وظاھرہ أنہ لا یکرہ إلی ما دونھما۔ قال في البحر: والظاھر الإطلاق لصدق کف الثوب علی الکل اھ، ونحوہ في الحلبة وکذا قال في شرح المنیة الکبیر: إن التقیید بالمرفقین اتفاقي (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، ۲: ۴۰۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۴:۱۳۸، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند