عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 601110
جواب نمبر: 601110
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:291-261/L=4/1442
مسبوق اگر سہو کے سلام میں امام کے ساتھ قصدا سلام پھیردے تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی اور یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جبکہ اس نے مسئلہ سے لاعلمی کی بناپر سلام پھیرا ہو ؛البتہ اگر اس نے امام کے ساتھ سہوا سلام پھیرا ہے تو اس صورت میں اس کی نماز فاسد نہ ہوگی اور سجدہ سہوکرنا بھی لازم نہ ہوگا۔ اور ان تینوں صورتوں میں خواہ ایک طرف سلام پھیرے یا دونوں طرف سب کا حکم یکساں ہے ۔(مستفاد:فتاوی محمودیہ :۵۵۶/۶، فتاوی رحیمیہ :/۵ ۱۹۱)
ثم المسبوق إنما یتابع الإمام فی السہو دون السلام، بل ینتظر الإمام حتی یسلم فیسجد فیتابعہ فی سجود السہو لا فی سلامہ.وإن سلم فإن کان عامدا تفسد صلاتہ، وإن کان ساہیا لا تفسد، ولا سہو علیہ؛ لأنہ مقتد، وسہو المقتدی باطل.[بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع 1/ 176)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند