عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 59149
جواب نمبر: 59149
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 383-382/Sd=7/1436-U (۱) ودی جانے کی پریشانی سے کیا مراد ہے؟ کیا مذکورہ شخص معذور شرعی ہے، یعنی ایک فرض نماز کا مکمل وقت اُس پر اس طرح گذرگیا ہے کہ اگر وہ وضو کرکے فرض نماز پڑھنا چاہتا، تو عذر کے بغیر نہیں پڑھ سکتا تھا؟ اگر مذکورہ شخص اس درجے معذور ہے اور اس کا عذر باقی ہے تو ایسے شخص کا امام بننا جائز نہیں ہے، اس کے پیچھے غیر معذورین کی نماز صحیح نہیں ہوگی، اس کے مقابلے میں بدرجہٴ مجبوری فاسق شخص کا امام بننا مقدم ہے اور اگر مذکورہ شخص اس درجے معذور نہیں ہے کبھی کبھی ودی کے قطرات آتے ہیں، تو فاسق کے مقابلے میں اس کو نماز پڑھانی چاہیے بشرطیکہ نماز میں ودی کے قطرات نہ آنے کا یقین یا ظن غالب ہو۔ واضح رہے کہ فاسق کے پیچھے اگرچہ نماز ادا ہوجاتی ہے؛ لیکن اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، جس کی وجہ سے نماز میں کراہت آجاتی ہے؛ اس لیے مسجد کے مصلیوں کو چاہیے کہ وہ نماز پڑھانے کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کریں جو متقی پرہیزگار، قرآن پاک کا صحیح پڑھنے والا ہو، نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہو اور ایک مشت کے بقدر ڈاڑھی رکھنے والا ہو۔ (۲) جی ہاں! پڑھ سکتے ہیں؛ لیکن بیوی کو برابر میں نہ کھڑا کریں بلکہ پیچھے کھڑا کریں۔ (۳) اگر آپ معذور شرعی ہیں، تو لوگوں سے آپ صاف صاف کہہ دیں کہ مجھے شرعی عذر ہے، میرے پیچھے نماز صحیح نہیں ہوگی۔ قال الحصکفي: وصاحب عذر من بہ سلسل بول إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاة مفروضة بإن لا یجد في جمیع وقتہا زمنًا یتوضأ ویصلي فیہ خالیًّا عن الحدث- قال ابن عابدین نقلاً عن الرحمتي: ثم ہل یشترط أن لا یمکنا مع سننہما أو الاقتصار علی فرضہما؟ یراجع اھ أقول الظاہر الثاني (الدر المختار مع رد المحتار: ۱/ ۵۰۴، مطلب في أحکام المعذور، ط: زکریا) وقال الحصکفي: ولا طاہر بمعذور (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۲۷۸، باب الإمامة، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت) وقال: وتکرہ إمامة -فسق- وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق- نال فضل الجماعة- قال ابن عابدین: لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (۲/۲۵۴-۲۵۷، باب الإمامة) وقال: أما الواحدة فتتأخر․ (۲/۲۶۴)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند