• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 58943

    عنوان: صلاة التسبیح کا پورا طریقہ بتائیں۔پہلی رکعت میں ایک سجدہ میں پھر جلسہ میں پھر قومہ میں ، دوسری رکعت میں تشہد میں التحیات سے پہلے پڑھنی ہے یا بعد میں؟ ایک رکعت میں ۷۵ بار پڑھنی ہوتی ہے۔ پہلی اور دوسری رکعت کا ٹوٹل ۷۵ بار ہوجائے ، اس طریقے سے بتائیں۔

    سوال: صلاة التسبیح کا پورا طریقہ بتائیں۔پہلی رکعت میں ایک سجدہ میں پھر جلسہ میں پھر قومہ میں ، دوسری رکعت میں تشہد میں التحیات سے پہلے پڑھنی ہے یا بعد میں؟ ایک رکعت میں ۷۵ بار پڑھنی ہوتی ہے۔ پہلی اور دوسری رکعت کا ٹوٹل ۷۵ بار ہوجائے ، اس طریقے سے بتائیں۔

    جواب نمبر: 58943

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 362-362/Sd=7/1436-U احادیث میں صلاة التسبیح کے دو طریقے مروی ہیں: (۱) پہلی رکعت میں حسب معمول سورہ فاتحہ اور سورت ملانے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے ۱۵/ مرتبہ ”سُبْحَانَ اللہِ، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ“ پڑھیں، اس کے بعد رکوع میں مقررہ تسبیح (سبحان ربی العظیم) پڑھنے کے بعد مذکورہ کلمات ۱۰/ مرتبہ پڑھیں، پھر قومہ میں ۱۰/ مرتبہ اس کے بعد پہلے سجدہ میں ۱۰/ مرتبہ، پھر جلسہ میں ۱۰/ مرتبہ، پھر دوسرے سجدہ میں ۱۰/ مرتبہ، پھر سجدہ سے اٹھ کر قیام میں جانے سے پہلے جلسہٴ استراحت میں ۱۰/ مرتبہ مذکورہ کلمات پڑھیں۔ اس طرح ایک رکعت میں پچھتر مرتبہ وہ کلمات پڑھے جائیں اور چار رکعت میں ۳۰۰ کا عدد پورا ہوجائے گا۔ (۲) دوسرا طریقہ حضرت عبد اللہ بن مبارک سے مروی ہے، اس کی ترتیب یہ ہے کہ پہلی رکعت میں ثنا پڑھنے کے بعد سورہٴ فاتحہ سے پہلے ۱۵/ مرتبہ مذکورہ کلمات کہے جائیں، پھر رکوع میں جانے سے قبل ۱۰/ مرتبہ وہی کلمات پڑھے جائیں گے، اس طرح قیام کی حالت میں تسبیحات کی مقدار ۲۵/ ہوجائے گی، پھر وہی ترتیب رہے گی جو پہلے طریقے میں گذری؛ البتہ اس طریقے میں دوسرے سجدے سے اٹھ کر تسبیحات پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس کے بغیر بھی ایک رکعت میں ۷۵/ مرتبہ تسبیحات کی مقدار پوری ہورہی ہے۔ ان دونوں طریقے میں سے کسی بھی طریقے کے مطابق صلاة التسبیح پڑھنا جائز ہے؛ البتہ دوسرے طریقے کو بعض فقہائے احناف نے راجح قرار دیا ہے۔ قال الحصکفی: وأربع صلاة التسبیح بثلاثمأة تسبحة․ قال ابن عابدین: وہي أربع بتسلیمة أو تسلیمتین، یقول فیہا ثلثمائة مرة ”سبحان اللہ، والحمد للہ ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر“ یقول ذلک في کل رکعة خمسة وسبعین مرة؛ فبعد الثناء خمسة عشر، ثم بعد القراء ة وفي رکوعہ، والرفع منہ، وکل من السجدتین، وفي الجلسة بینہما عشرا عشرا بعد تسبیح الرکوع والسجود، وہذہ الکیفیة ہي التي رواہا الترمذي في جامعہ عن عبد اللہ بن المبارک وعلیہا اقتصر في القنیة وقال: إنہا المختار من الروایتین․ والروایة الثانیة أن یقتصر في القیام علی خمسة عشر مرة بعد القراء ة، والعشرة الباقیة یأتي بہا بعد الرفع من السجدة الثانیة، قال في شرح المنیة: إن الصفة التي ذکرہا ابن المابک ہي التي ذکرہا في مختصر البحر، وہي الموافقة لمذہبنا لعدم الاحتیاج فیہا إلی جلسة الاستراحة إذ ہي مکروہة عندنا. اہ. قال ابن عابدین: قلت: لکن علمت أن ثبوت حدیثہا یثبتہا وإن کان فیہا ذلک، فالذي ینبغي فعل ہذہ مرة وہذہ مرة․ (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۴۱۰- ۴۱۱، مطلب في صلاة التسبیح، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند