• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 58852

    عنوان: کیا ٹی شرٹ میں نمازپڑھنا جائز ہے؟

    سوال: (۱) کیا ٹی شرٹ میں نمازپڑھنا جائز ہے؟کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مکرو ہ ہے، لیکن کوئی اس بارے میں حوالہ کے ساتھ مستند حدیث پیش نہیں کرتاہے۔ (۲) کیا مکھیوں اور مچھروں کو جان سے مارنا حرام ہے یا نہیں؟ (۳) جمعہ میں کتنی رکعت سنت کیسے پڑھوں؟ کچھ لوگ ظہر کی بارہ رکعت پڑھتے ہیں۔ براہ کرم، تفصیل سے جوا ب دیں۔

    جواب نمبر: 58852

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 315-315/Sd=7/1436-U (۱) اگر ٹی شرٹ ایسی ہو کہ جس میں دونوں کہنیاں کھلی ہوئی ہوں، تو اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے نماز میں حکم دیا گیا ہے کہ میں بالوں اور کپڑوں کو نہ سمیٹوں، فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ حدیث آستین کھول کر نماز پڑھنے کے حکم کو بھی شامل ہے۔ قال ابن الہمام: وقد أخرج الستة عنہ صلی اللہ علیہ وسلم: أمرتُ أن أسجُدَ علی سبعة وأن لا أکف شعرًا ولا ثوبًا ویتضمن کراہة کون المصلي مشمرًا کمیہ․ (فتح القدیر: ۱/ ۴۲۴، زکریا) ولو صلی رافعًا کمیہ إلی المرفقین کُرِہ․ (الہندیة: ۱/ ۱۰۶، نفع المفتي والسائل، ص: ۶۵) (۲) مچھروں کو مارنا جائز ہے اور ضرورت کے وقت مکھیوں کا مارنا بھی جائز ہے۔ قال الحصکفي: وجاز قتل ما یضر منہا إلخ (الدر المختار مع رد المحتار: کتاب الخنثی، مسائل شتی: ۱۰/ ۴۰۰، دار الکتاب) فتاوی دارالعلوم میں ہے: مکھی خبائث میں سے ہے، اگر مارنا اس کا کسی وجہ اور ضرورت سے ہو، تو درست ہے، مثلاً: حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر مکھی سالن میں گرجائے، تو اس کو ڈبوکر نکال دو، تو اس سے ظاہر ہے کہ وہ مرجاتی ہے، سو یہ درست ہے۔ (فتاوی دارالعلوم: ۱۷/ ۴۲۱ة متفرق مسائل) عن أبي ہریرة رضی اللہ عنہ أن رسول اللہ علیہ وسلم قال: إذا وقع الذباب في إناء أحدکم، فلیغمسہ کلہ، ثم لیطرحہ؛ فإن في أحد جناحیہ شفاء وفي الآخر داء․ (البخاري: ۲/ ۱۶۰، کتاب الطب، باب إذا وقع الذباب في الإناء) (۳) جمعہ سے پہلے چار رکعت سنت موٴکدہ ہیں اور جمعہ کے بعد پہلے چار رکعت سنت موٴکدہ ہیں، پھر دو رکعت سنت غیر موٴکدہ، اس طرح جمعہ کی دو رکعت فرض ملاکر کل بارہ رکعات ہوگئیں۔ (۴) جو لوگ ظہر کی بارہ رکعت پڑھتے ہیں، وہ صحیح کرتے ہیں، ظہر سے پہلے چار رکعت سنت موٴکدہ ہیں اور ظہر کے بعد پہلے دو رکعت سنت موٴکدہ پھر دو رکعت مستحب ہیں، اس طرح ظہر کی چار رکعت فرض ملاکر کل بارہ رکعات ہوگئیں۔ روابن ماجہ بإسنادہ عن ابن عباس رضي للہ عنہما کان النبي صی اللہ علیہ وسلم یرکع قبل الجمعة أربعًا لا یفصل في شیٴ منہن․ (ابن ماجہ، رقم: ۱۱۵۷، رد المحتار: ۲/۴۵۱،زکریا) وقال الحصکفي: واربع قبل الجمعة وأربع بعدہا بتسلیمة (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/ ۴۵۱، زکریا) وعن أبي ہریرة رضي اللہ عنہ أنہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من کان منکم مصلیًا بعد الجمعة، فلیصل أربعًا (مسلم، رقم: ۸۸۱) وعند أبي یوسف: السنة بعد الجمعة ست رکعات، وہو مروي عن علي رضي اللہ عنہ والأفضل أن یصلي أربعًا، ثم رکعتین للخروج عن الخاص عن الخلاف (مجمع الأنہر: ۱/۱۳۰، فقیہ الأمت) وعن عائشة رضي اللہ عنہا قالت: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم لا یدع أربعًا قبل الظہر․ (البخاري: ۱/۱۵۷، رقم: ۱۱۸۲، حلبي کبیري، ص: ۳۸۳) وسن موٴکدًا أربع قبل الظہر (رد المحتار: ۲/۴۵۱، زکریا) واستحب کثیر من أصحابنا الأربع بعد الظہر لما روي عن أم حبیبة رضي اللہ عنہا قالت: سمعتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من حافظ علی أربع رکعات قبل الظہر وأربع بعدہا حرمہ اللہ علی النار․ (رواہ الخمسة، حلبي کبیر، ص: ۳۸۴) ومنہا رکعتان بعد الظہر، ویندب أن یضم غلیہا رکعتین، فتصیر أربعًا (الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ص: ۲۱۲، رد المحتار: ۲/۴۵۲، زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند