عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 58375
جواب نمبر: 58375
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 689-781/L=6/1436-U (۱) عورت کی نماز رکوع، سجود اور جلسہ کے علاوہ ہاتھ باندھنے کی کیفیت میں بھی مرد کی نماز سے مختلف ہے، چنانچہ عورت بوقت تکبیر تحریمہ اپنے ہاتھوں کو صرف کندھوں تک اٹھائے گی، نیز عورت تکبیر تحریمہ کے لیے دوپٹے کے اندر ہی سے اپنے ہاتھ اٹھائے گی۔ (۲) عورت کے سینے پر ہاتھ باندھنے کا حکم احادیثِ مبارکہ کے اشارے اور مقتضا سے ثابت ہوتا ہے، چونکہ عورت کی نماز کی کیفیت کے فرق کے سلسلے میں وارد شدہ روایات کے مجموعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عورت نماز میں ایسی کیفیت اور ہیئت اپنائے جس میں وہ زیادہ سے زیادہ مستور اور پوشیدہ رہے، اور ا عضائے جسمانی کا مکمل پردہ ہوجائے، جیسے کہ درج ذیل احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے عن وائل بن حجر قال لي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”یا وائل بن حجر، إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک، والمرأة تجعل یدیھا حذاء ثدییھا“ (معجم طبراني: ۲۲/۱۸) عن الحسن قال: إذا بلغت المرأة الحیض ولم تغط أذنہا ورأسہا لم تقبل لہا صلاة (مصنف بن أبي شیبة: ۱/۱۳۰) عن عائشة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا تقبل صلاة الحائض إلا بخمار (جامع الترمذي: ۱/۸۶) وعنہا أنہا سئلت عن ا لخمار فقالت إنما الخمار ما واري البشرة والشعر (السنن الکبری: ۲/۲۳۵) عن ابن عباس أنہ سئل عن صلاة المرأة فقال تجتمع وتحتفر (مصنف ابن أبي شیبة: ۱/۳۰۲) جیسا کہ امام بیہقی نے ایسی ہی روایات کی روشنی میں اس بات کی صراحت کی ہے، کہ عورت کی نماز میں پردہ اور ستر مقدم ہے، وجمّاع ما یفارق المرأة فیہ من أحکام الصلاة راع إلی الستر ووہو إنہا مامورة بکل ما کان أستر لہا (السنن الکبری: باب من ذکر صلاة وہو في أخری: ۲/۳۱۴) لہٰذا سینے پر ہاتھ باندھنے کی کیفیت میں بھی ستر کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، اسی لیے فقہائے کرام نے احادیث مبارکہ کی روشنی میں عورت کے لیے سینے پر ہاتھ باندھنے کو مسنون قرار دیا، اور اسی پر علمائے کرام کا اتفاق بھی ہے، قال الإمام اللکنوي: وأما في حق النساء فاتفقوا علی أن السنة لہن وضع الیدین علی الصدر لأنہ أستر لہا کما في البنایة (السعایة، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة: ۲/۱۵۶، ط: اشریفی دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند