• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 57637

    عنوان: تكبیرات انتقالیہ كب كہے

    سوال: گزارش ہے کہ فقہ کی کتابوں(فتاویٰ عالمگیری، عمدة الفقہ اردو کتاب الصلوٰة، نماز کا انسائکلوپیڈیا) میں نماز کے باب میں تکبیر انتقال کے متعلق لکھا ہوا ہے کہ یہ سنت ہے اور اس کے پڑھنے کا سنت موقعہ حرکتِ انتقال کے دوران ہے ۔ اسی طرح سمع اللہ لمن حمدہ رکوع سے اٹھنے سے لیکر سیدھا کھڑے ہونے یعنی قومہ تک پڑھ لینا چاہئے اور ربنا لک الحمد قومہ کے دوران پڑھنا چاہئے ۔ مزید لکھا ہے کہ اگر کوئی سمع اللہ لمن حمدہ اپنے موقعہ یعنی حرکتِ انتقال کے دوران نہ پڑھے اور کھڑا ہوکر پڑھے تو یہ پڑھنے کا موقعہ غلط ہے اور یہ پڑھنا خلاف سنت ہوگا۔ اسی طرح رکوع میں جاتے ہوئے اور سجدہ میں جاتے ہوئے اور سجدہ سے اٹھتے ہوئے اللہ اکبر پڑھنا حرکت انتقال کے اندر ہونا چاہئے اور اگر اللہ اکبر رکوع میں جاتے ہوئے تیز کی وجہ سے رکوع میں جاکرپڑھیں یا سجدہ میں جاتے ہوئے اللہ اکبر جسم کی تیزی کی وجہ سے سجدہ میں جاکر پڑھیں تو یہ اپنے مقام پر نہ پڑھنے کی وجہ سے خلاف سنت ہوگا اوراس میں کراہت(مکروہ) ہوگی۔ ایک رکعت میں 5-6 تکبیریں انتقال ہوتی ہیں اور اگر ان سب کو اپنے موقعہ پر نہ پڑھیں بلکہ رکوع یا سجدہ میں جاکر پڑھیں جو کہ اس کا موقعہ نہیں ہے تو ہر ایک کے بے موقعہ پڑھنے کی وجہ سے نماز میں ایک کراہت پیدا ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ عموماً یہ بات رواج میں آگئی ہے کہ نمازیوں کا جسم ان تکبیرات کے کہتے ہوئے جلدی اور تیزی کی وجہ سے حرکت انتقال سے آگے ہوتا ہے ۔ انفرادی طور پر بھی اس کا خیال نہیں رکھا جاتا اور جماعت کروانے والے ائمہ اکرام بھی ان تکبیرات کا اکثر حصہ رکوع یا سجدہ میں جا کر پڑھتے ہیں اور سمع اللہ لمن حمدہ کا اکثر حصہ کھڑے ہو کر پڑھتے ہیں۔جب ان کی توجہ اس امر کی طرف دلائی گئی تو وہ کہتے ہیں کہ امام کے لئے ایسے پڑھنا جائز اور بعض نے کہا کہ مستحب ہے لیکن تلاش کے باوجود کسی فقہ کی کتاب میں ایسا حوالہ نہیں مل سکا۔ اگر اُن کا یہ کہنا صحیح ہے تو برائے مہربانی کوئی حوالہ لکھ دیں اور اگربے موقعہ پڑھناغلط اور خلاف سنت اور مکروہ ہے تو بھی ذرا واضح فرمادیں تاکہ تصحیح کی جاسکے ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔

    جواب نمبر: 57637

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 230-195/Sn=4/1436-U تکبیراتِ انتقالیہ کے سلسلے میں سنت یہ ہے کہ دورانِ انتقال ہی تکبیر مکمل کرلی جائے، اس طرح کہ ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہوتے ہوئے تکبیر یا تسمیع وغیرہ شروع کرے اور انتقال کے اختتام کے ساتھ ساتھ تکبیر بھی مکمل کرلے۔ ویکبر مع الانحطاط، کذا في ”الہدایة“ قال الطحاوي: وہو الصحیح کذا في ”معراج الدرایة“ فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في ”المحیط“․ (الفتاوی الہندیة: ۱/ ۱۳۱، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) انتقال مکل ہونے کے بعد اگلے رکن میں تکبیرات ادا کرنے کو فقہائے کرام نے مکروہ لکھا ہے، اور اس میں امام ومقتدی کی کوئی تخصیص نہیں کی (وُیُکرہ) أن یأتي بالأذکار المشروعة في الانتقالات بعد تمام الانتقال․․․ بأن یکبر للرکوع بعد الانتہاء إلی حد الرکوع ویقول سمع اللہ لمن حمدہ بعد تمام القیام (کبیري: ۳۵۷) جو حضرات کہتے ہیں کہ اگلے رکن میں تکبیرات ادا کرنا امام کے لیے جائز یا مستحب ہے ان کی بات درست نہیں ہے، آپ ان کو نرمی سے سمجھا دیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند