• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 57509

    عنوان: سمت قبلہ کے بارے میں شبہ ہوا کہ وہ صحیح نہیں تھا؟

    سوال: میں اسپین سے لکھ رہاہوں۔ چھ مہینے پہلے ہم ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوئے۔میرے والد صاحب سمت قبلہ کے بارے میں بتایا۔جب میں شہرکی مسجد میں جانے لگا تو مجھے سمت قبلہ کے بارے میں شبہ ہوا کہ وہ صحیح نہیں تھا، لیکن میں نے اس کو زیادہ اہمیت نہیں دی یہ سوچ کر کہ میرے والد اس بارے میں تحقیق کرلی تھی، مگر جب میں نے تحقیق کرنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بالکل غلط تھا (۲۶ ڈگری سے زیادہ )۔ اب ہم نے سمت قبلہ بدل دیا ہے، لیکن غلط سمت قبلہ میں جو نمازیں پڑھی ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہوگا؟کیا ہمیں چھ مہینوں کی ساری نمازیں دہرانی چاہئے؟جب میں نے والد صاحب سے پوچھا تو کہ انہوں نے کہا کہ انہوں نے خود سے سمت کے بارے میں غور و فکر کیاتھا(اس جگہ کا مقابلہ کرتے ہوئے جہاں ہم پہلے رہ رہے تھے) اور ان کے غورو فکر میں یہ غلطی تھی۔ جزاک اللہ خیر۔ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 57509

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 245-245/Sd=6/1436-U عین قبلہ سے پینتالیس درجے تک انحراف سے ا ستقبا ل قبلہ فوت ہونے کا حکم نہیں ہوتا ہے اور اس قدر انحراف سے نماز فاسد نہیں ہوتی؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر عین قبلہ سے انحراف ۴۵ درجے سے کم تھا، تو چھ مہینوں کی ساری نمازیں صحیح ہوگئیں اِعادے کی ضرورت نہیں ہے۔ قال في الخیریة: ومن القواعد الفلکیة إذا کان الانحراف عن مقتضی الأدلة الربع الذي فیہ مکة المشرفة من غیر إشکال إلخ (جواہر الفقہ: ۲/۳۵۸، زکریا نقلاً عن الفتاوی الخیریة: ۱/۱۰۹) وقال ابن عابدین: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافًا لا تزول منہ المقابلة بالکلیة، جاز، ویوٴیدہ ما قالہ في الظہیریة: إذا تیامن أو تیاسر تجوز إلخ (رد المحتار: ۱/۴۲۸، باب شروط الصلاة، ط: دار الفکر، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند