• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 57445

    عنوان: سجدہٴ سہو كا جو طریقہ ہے اسكی دلیل كیا ہے؟

    سوال: عرض خدمت ہے کہ ہم احناف سجدہ سہو کے لے ء پہلے تشہد پہر ایک سلام پہر تشہد.درود.دعا کے بعد سلام پہیرتے ہیں ہمارے عمل کی دلیل بتائیں بعض اہلحدث یہ مشہور کررہے ہیں کہ یہ بدعت ہے ... (2)... ہم احناف وتر میں تیسری رکعت میں فاتحہ و سورت کے بعد رفع ید کرتے ہیں پہر قنوت پہر رکوع و سجود.. بعض اہلحدث یہ افواہ پہیلا رہے ہیں یہ ترتیب ثابت نہیں بدعت ہے ... جواب عطا فرمائیں

    جواب نمبر: 57445

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 221-188/Sn=4/1436-U (۱) اگر کسی شخص سے نماز میں سہو ہوجائے تو فقہ حنفی میں اسکا حکم یہ ہے کہ قعدہٴ اخیرہ میں بیٹھ کر محض تشہد پڑھ کر سلام پھیردے (یہ سلامِ سہو ہے) اس کے بعد دوبارہ تشہد درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیرے، اب نماز پوری ہوگی۔ یہ ترتیب (یعنی اولاً تشہد، پھر سلام پھر تشہد ودورد وغیرہ پھر سلام) کئی ایک احادیث وآثار سے ثابت ہے، ان میں سے بعض یہ ہیں: عن ابن مسعود -رضي اللہ عنہ مرفوعا: وَإِذَا شَکَّ أَحَدُکُمْ فِي صَلاَتِھِ، فَلْیَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْیُتِمَّ عَلَیْہِ، ثُمَّ لِیُسَلِّمْ، ثُمَّ یَسْجُدُ سَجْدَتَیْنِ رواہ البخاری۔ اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شک کرے تو درست کیا ہے اس کے لیے تحری کرے اور اسی پر نماز مکمل کرے پھڑ سلام پھیرکر سجدہٴ سہو کرے -اس سے سلام سے پہلے تشہد کا ثبوت ہورہا ہے؛ اس لیے کہ تشہد کے بغیر نماز مکمل کرنے کی کوئی شکل نہیں ہے، نسائی شریف کی ایک روایت میں ہے: عن أبي ہریرة -رضي اللہ عنہ - أن رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- سلَّم ثم سجد سجدتي السَّہو وہو جالس ثم سلّم اس حدیث میں سلام سہو کے بعد دوبارہ سلام کرنے کا حکم ہے۔ (اول الذکر بخاری کی حدیث میں بھی اس کا ذکر ہے) ترمذی شرف کی ایک حدیث میں ہے: عن عمران بن حصین: أن النبي -صلی اللہ علیہ وسلم- صلی بہم فسہا فسجد سجدتین ثم تشہد ثم سلّم (نسائی) اس حدیث میں سجدہٴ سہو کے بعد دوبارہ تشہد پڑھنا ثابت ہورہا ہے۔ ”مدونہ کبر ی“ میں سحنون کی ایک روایت میں ہے: عن أبي عبیدة قال: قال عبد اللہ بن مسعود -رضي اللہ عنہ- إذا قام أحدکم في قعود أو قعد في قیام أو سلّم في الرکعتین، فلیتمّ ثم یسلّم ثم یسجد سجدتین یتشہد فیہما ویسلم (إعلاء السنن: ۷/۱۶۴) اس اثر سے سجدہٴ سہو کی مذکورہ بالا پوری ترتیب ثابت ہورہی ہے۔ (۲) صحابہٴ کرام کے بعد صحیح السند آثار سے ”قنوت“ سے پہلے رفع یدین ثابت ہے عن الأسود عن عبد اللہ (ہو ابن مسعود) أنّہ کان یقرأ في آخر رکعة من الوتر قل ہو اللہ أحد، ثم یرفع یدیہ فیقنت قبل الرکعة رواہ الإمام البخاري في جزء ”رفع الدین“ لہ وقال: صحیح (إعلاء السنن: ۷/۸۴) اس طرح بخاری رحمہ اللہ نے جزء رفع الیدین میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل یہی نقل کیا ہے: عن أبي عثمان کان عمر -رَضي اللہ تعالی عنہ- یرفع یدیہ في القنوت (إعلاء السنن: ۶/۸۵) نیز اس میں ایک روایت بھی ہے: کنا وعمر یوٴم النّاس ثم ثقنت بنا عند الرکوع یرفع یدیہ حتی یبدو کفّاہ ویخرج ضبعیہ الخ (إعلاء السنن: ۶/۸۵، ط: اشرفی، رقم ۱۶۹۹، ۱۷۰۰) مزید تفصیل کے لیے اعلاء السنن ج۶ اور ۷ کا مطالعہ مفید ہوگا، اور یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بہت سے مسائل سے متعلق دونوں طرح کی روایات موجود ہوتی ہیں؛ اس لیے فقہائے کرام کا طرز عمل یہ ہے تمام روایات نیز صحابہٴ کرام کے تعامل کو سامنے رکھ کر ان میں سے بعض کو بعض پر ترجیح یا ان کے درمیان باہم تطبیق دیتے ہیں؛ لہٰذا اگر کسی مسئلے سے متعلق کوئی حدیث معمول بہ کے خلاف پر دلالت کرنے والی یا نسبةً اس سے مضبوط مل جائے تو کسی شک وشبہ میں نہ پڑنا چاہیے؛ بلکہ کسی کے اعتراض کرنے کی صورت میں حدیث وفقہ پر گہری نظر رکھنے والے اپنے مسلک کے علماء کے حوالہ کردینا چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند