• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 57391

    عنوان: معذور کا حکم

    سوال: عا جز یہ جا ننا چاہتا ہے ، اگر کوئی مریض ہو جس کو ودی خارج ہونے کی شکایت ہو، کسی بھی نماز میں کسی بھی وقت ودی خارج ہو جاتی ہو، ایسی صورت میں وضو کی کیا صورت حال ہوگی، نیز وہ نماز کیسے پڑھے ۔ یہ مسئلہ خصوصا ہم بستری کے بعد ہوتا ہو، یعنی اگر مریض ہم بستری نہ کرے تو ایسا کم ہوتا ہو، ایسی صورت میں کیا کرنا چا ہئے ، اور یہ بھی صورت ہو کہ بعض اوقات اس کو احساس بھی نہیں ہوتا ہو کہ وضو جا تا رہا،تو کیا ۱۔ اسے معذور سمجھا جا ئیگا اور وہ نماز کی امامت نہیں کر سکتا؟ ۲۔ کیا اس کو عذاب قبر ہوگا، پیشاب سے احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے ؟ ۳۔ وہ پاکی اور وضو سے رہنے کے لئے کیا کرے ، کوئی شکل ہو سکتی ہے ؟ جزاکم اللہ احسن الجزا۔

    جواب نمبر: 57391

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 340-340/M=4/1436-U مسئولہ صورت میں اگر آپ کو ودی کثرت سے آتی ہے اور ایک نماز کے پورے وقت میں اتنی بھی مہلت نہیں ملتی کہ آپ وضوء کرکے فرض نماز پڑھ لیں توایسی حالت میں آپ شرعاً معذور ہیں، ہروقت کے لیے تازہ وضو کرکے نماز ادا کرلیا کریں، وقت کے اندر ودی کی وجہ سے دوبارہ وضوء کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ کپڑے بدلنا لازم ہے؛ لیکن امامت نہیں کرسکتے ہیں اوراس عذر کی وجہ سے عذاب قبر نہ ہونے کی امید ہے دوسرے وقت کی نماز کے لیے پاک کپڑا بدلنا ہوگا۔ اور اکر آپکو اتنا وقت مل جاتا ہے کہ وضوء کرکے نماز پڑھ لیں اور وہ عذر لاحق نہ ہو تو آپ شرعاً معذور نہیں، تو اس صورت میں ہرمرتبہ خروج د ودی آپ کے حق میں ناقض وصوء ہے اور اگر کپڑے میں مقدار معفو عنہ سے زائد لگ جائے تو اس کو صاف کرکے نماز پڑھنا ضروری ہے اوراس صورت میں آپ وضو کو برقرار رکھتے ہوئے امامت بھی کرسکتے ہیں۔ المستحاضة ومن بہ سلسُ بولٍ أو استطلاق بطنٍ أو انفلات ریح أو رعاف دائم أو جرح لا یرقأ یتوضئون لوقت کل صلاة ویصلون بہ ما شاوٴوا من فرضٍ ونفلٍ ویبطل بخروجہ فقط․․․ والمعذور من لا یمضی علیہ وقت صلاة إلا والذي ابتلي بہ یوجد فیہ ہذا التعریف في حالة البقاء وأما في حالة الابتداء فإنہ یستوعب استمرار العذر وقت الصلاة کاملاً کالانقطاع الخ․ (ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر ج۱/ ۸۴-۸۵، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت، الطبعة الأولی ۱۴۱۹ہج، وفسد اقتداء طاہر صاحب العذر المفوت للطہارة لأن الصحیح أقوی حالاً من المعذور․․․ إذا توضأ علی الانقطاع وصلی کذلک فإنہ یصح الاقتداء بہ لأنہ في حکم الطاہر․ (البحر الرائق کتاب الصلاة باب الإمامة ج۱ ص۶۳۰، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند