• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 57320

    عنوان: مقتدی كا سجدے میں تین سے زائد بار تسبیحات پڑھنا؟

    سوال: (۱) اگر میں مقتدی ہوں اور کسی رکعت میں سبحان ربی الاعلی تین یا چار یا پانچ بار سے زائد کہتا ہوں تو کیا میری نماز درست ہوگی؟ مثال کے طورپر: پہلی رکعت میں امام زیادہ دیر تک رکے رہتے ہیں ا س لیے رکوع میں پانچ مرتبہ اور سجدہ میں چار مرتبہ تسبیح ہوجاتی ہے۔ دوسری رکعت میں امام تھوڑا کم وقت تک رکتے ہیں اس لیے رکوع میں تین بار اور سجدہ میں چار بار تسبیح ہوجاتی ہے۔ (۲) نمازکی نیت کے وقت فرض کیجئے اگر عشاء کی نماز ہے اور میں غلطی سے کہتا ہوں ”نیت کرتا ہوں میں عصر کی“ تو کیا میری نماز ہوجائے گی یا مجھ کو نماز دہرانی پڑے گی؟ (۳) نماز میں قرأت کے دوران اگر میں ”اہدنا الصراط المستقیم“ صحیح طریقہ سے نہیں کہہ پاتا ہوں اور میں اس کو تین یا چار بار دہراتا ہوں یہاں تک کہ اس کی ادائیگی صحیح ہوجاتی ہے تو کیا میری نماز صحیح ہوگی؟ یہی سوال دیگر سورتوں کے بارے میں بھی ہے۔ (۴) مقتدی ہونے کی حالت میں آخری رکعت میں بیٹھنے کے وقت جب میں التحیات پڑھتا ہوں اور میں درمیانی درود یا دعا میں ہوتا ہوں تبھی امام سلام پھیر دیتے ہیں۔ تو میں کیا کروں؟ کیا درود و دعا کو پڑھنا جاری رکھوں یا سلام پھیر لوں اوردعا اور درود کو درمیان ہی میں چھوڑ دوں؟

    جواب نمبر: 57320

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 199-165/Sn=3/1436-U (۱) جی ہاں، آپ کی نماز درست ہوجاتی ہے؛ البتہ کوشش کریں کہ تسبیحات میں طاق عدد مثلاً تین، پانچ، سات، نو کی رعایت ہوجائے؛ باقی اگر طلاق عدد تک پہنچنے سے پہلے ہی امام صاحب رکوع یا سجدے سے اٹھ جائیں تو آپ بھی ان کا اتباع کریں۔ تسبیحات موقوف کردیں۔ فی مراقی الفلاح: ویسن تسبیحہ أي الرکوع ثلاثًا لقول النبي -صلی اللہ علیہ وسلم- إذا رکع أحدکم فلیقل ثلاث مرات سبحان ربي العظیم وذلک أدناہ وإذا سجد فلیقل سبحان ربي الأعلی ثلاث مرات وذلک أدناہ․․․ والأمر للاستحباب فیکرہ أن ینقص عنہا ولو رفع الإمام مثل إتمام المقتدي ثلاثا فالصحیح أنہ یتابعہ الخ وفي حاشیة الطحطاوي قال في البرح ما ملخّصہ أن الزیادة أفضل بعد أن یختم علی وتر الخ (ص: ۲۶۵، ط: زکریا) (۲) اگر دل میں عشا کی نماز ہی ہے، صرف زبان پر عصر کا لفظ آگیا تو آپ کی نماز درست ہوگئی، اعادے کی ضرورت نہیں ہے، فلو نوی الظہر بقلبہ في وقتہ وتلفّظ بنیة العصر لا یضرّہ (المرقاة ۱/۴۰ ط: امدادیہ ملتان) وانظر حاشیة الطحطاوي علی المراقي (ص: ۲۱۷، ط: دار الکتاب، دیوبند) (۳) جی ہاں، آپ کی نماز صحیح ہوجائے گی وکذا لوکرر کلمة․․․ قال في الظہیریة: وإن کر کلمة وإن لم یتغیر بہا المعنی لا تفسد وإن تغیّر․․․ قال بعضہم لا تفسد والصحیح أنہا تفسد․․․ قلت ظاہرة أن الفساد منوط بمعرفة ذلک فلو کان لا یعرفہ أو لم یقصد معنی الإضافة وإنما سبق لسانہ إلی ذلک أو قصد مجرّد تکریر الکلمة لتصحیح مخارج حروفہا ینبغي عدم الفساد الخ (۲/۳۹۷، الدر مع الرد، مطلب: إذا قرأ قولہ ”تعالی جدک“ بدون ألف لا تفسد، ط: زکریا) (۴) آپ درود ودعا موقوف کرکے امام کے ساتھ سلام پھیردیں․․․ ولو سلم قبل أن یأتي المقتدی بالصلاة والدعوات فإنہ یتابعہ الخ (حلبي کبیري ص: ۴۵۴،ط: دار الکتاب، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند