عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 56853
جواب نمبر: 56853
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 96-96/Sd=3/1436-U ختم سحر اور اذانِ فجر کے درمیان پانچ چھ منٹ کا فاصلہ احتیاط کے لیے رکھا جاتا ہے تاکہ فجر کی اذان کا وقت کے اندر ہونا متیقن ہوجائے، ورنہ سحرکا وقت ختم ہوتے ہی فجر کاوقت شروع ہوجاتا ہے، لہٰذا اگر سحر کا وقت ختم ہوتے ہی فجر کی اذان دیدی گئی تو اذان صحیح ہوگئی، اس کو لوٹانے کی ضرورت نہیں، ہاں اگر فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہی اذان ہوجائے تو وقت شروع ہونے کے بعد اس کو لوٹانا ضروری ہے، لیکن اگر دہرائے بغیر ہی نماز پڑھ لی گئی تو نماز کے بعد دوبارہ اذان نہیں دی جائے گی: قال الحصکفي: ووقتُ الفجر من طلوع الفجر الثاني إلی طلوع ذکاء (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۱۴، کتاب الصلاة زکریا، دیوبند) وقال ابن عابدین تحت حد الصوم: وہو الیوم أی الیوم الشرعی من طلوع الفجر إلی الغروب (رد المحتار کتاب الصوم: ۳/۳۳۰، زکریا) وقال الحصکفي: فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامة وقال: وہو سنة للرجال ․․․ موٴکدة للفرائض الخمس․ (الدر المختارمع رد المحتار: ۲/۴۸-۵۰،کتاب الصلاة، زکریا) (۲) فجر کی جماعت میں مستحب یہ ہے کہ اسفار (روشنی) میں شروع کی جائے اور اِسفار ہی میں ختم کی جائے یعنی: طلوع فجر سے تقریباً تیس منٹ پہلے نماز شروع کی جائے، قال الحصکفي: والمستحب للرجل الابتداء في الفجر بإسفار والختم بہ (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۲۴، کتاب الصلاة، زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند