• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 55682

    عنوان: عصر كی نماز كا وقت

    سوال: میں ایک دکاندار ہوں، میری دکان کے بغل میں ایک مسجد ہے جہاں کچھ لوگوں کا قبضہ ہے وہ اپنے کو سنی کہتے ہیں ، کہتے ہیں کہ آپ ہماری مسجد میں مت آیئے ، چاہے آپ کی نماز ہی کیوں نہ چلی جائے ، وہ ہمیں دیوبندی کہہ کر مسجد میں آنے سے روکتے ہیں اور کہتے ہیں ہم صحیح (جنتی) ہیں تم غلط ہو، تھوڑی دور پر ایک اور مسجد ہے ، لیکن وہاں پر عصر کی نماز کا وقت کا مسئلہ ہے، وہاں آج کی تاریخ میں ساڑھے چار بجے جماعت ہوتی ہے جب کہ اور جگہوں پر پانچ بجے جماعت ہوتی ہے، بتائیں کیا وہاں پر عصر کی نماز پڑھنے سے نماز ادا ہوجائے گی؟ کیوں کہ جامع مسجد میں پڑھنے کے لیے مجھے بائک سے جانا پڑے گا ۔ براہ کرم، بتائیں کہ میں کیا کروں؟

    جواب نمبر: 55682

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1506-1509/N=1/1436-U حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک عصر کا وقت مثل ثانی کے بعد شروع ہوتا ہے، جب کہ حضرات صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک مثل اول کے بعد ہی عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے، او رمتون میں امام صاحب ہی کا قول اختیارکیا گیا ہے، اور اکثر مشائخ نے فتوی بھی اسی پر دیا ہے، اگرچہ بعض مشائخ نے صاحبین کے قول پر فتوی دیا ہے اور بہرصورت احتیاط اسی میں ہے کہ عصر کی نماز مثل ثانی کے بعد ادا کی جائے تاکہ سب کے نزدیک یقین کے ساتھ عصر کی نماز ادا ہوجائے؛ لہٰذا اگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق عصر کا وقت ساڑھے چار بجے شروع نہیں ہوتا ہے تو آپ ساڑھے چار بجے والی عصر نہ پڑھیں؛ بلکہ بائک کے ذریعہ جامع مسجد جاکر وہاں پانچ بجے والی عصر پڑھیں، اور اگر کبھی بائک کا نظم نہ ہو اورجامع مسجد پیدل جانا مشکل ہو تو عصر کی نماز مثل ثانی کے بعد اپنی دکان ہی میں ادا کرلیں ”وانظر ھل إذا لزم من تأخیرہ العصر إلی المثلین فوت الجماعة یکون الأولی التأخیر أم لا ، والظاھر الأول بل یلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام تأمل․ ثم رأیت في آخر شرح المنیة ناقلا عن بعض الفتاوی أنہ لو کان إمام محلتہ یصلي العشاء قبل غیاب الشفق الأبیض فالأفضل أن یصلیھا وحدہ بعد البیاض “․ (شامي: ۲/۱۵ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند