عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 49785
جواب نمبر: 49785
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 268-221/B=2/1435-U اگر کسی کو قبلہ کا سمت معلوم نہ ہو اور کوئی بتانے والا بھی نہ ہو تاکہ اس سے قبلہ کا سمت معلوم کیاجائے پھر اس نے تحری کرکے کسی ایک سمت کو قبلہ گمان کرکے نماز پڑھ لی تو اس کی نماز درست ہوگئی اگرچہ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ اس نے غلط سمت کی طرف نماز پڑھی ہے لیکن اگر بغیر تحری کے نماز پڑھ لی تواس کی نماز نہیں ہوگی اور دوبارہ لوٹانا ضروری ہے، البتہ اگر نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس کو یہ معلوم ہوا کہ میں نے صحیح سمت کی طرف نماز پڑھی ہے اب دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے کہ: ”وإن اشتبہت علیہ القبلة ولیس بحضرتہ من یسأل عنہا اجتہد وصلّی کذا في الہدایة فإن علم أنہ أخطأ بعد ما صلی لا یعیدہا (الفتاوی الہندیة: ج۱ ص۱۲۱ مکتبہ اتحاد) اور البحر الرائق میں ہے: ”وقید بالتحري لأن من صلّی ممن اشتبہت علیہ بلا تحرّ فعلیہ الإعادة (البحر الرائق: ۱/۵۰۱ مکتبہ زکریا) اوردر مختار میں ہے: ”وإن شرع بلا تحرّ لم یجز وإن أصاب لترکہ فرض التحري، إلا إذا علم إصابتہ بعد فراغہ فلا یعید اتفاقًا (الدر المختار: ۱/۶۹ دار الکتاب)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند