• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 49586

    عنوان: تحتہ المسجد نماز كا درجه كيا ہے‏، سنت واجب یا مستحب

    سوال: امام بخاری نے اپنی حدیث کی کتاب میں تحتہ المسجد کی حدیث تحریر کر کے اس حدیث سے متعلق جو حاشیہ تحریر کیا ہے اس حاشیہ کا اردو ترجمہ بتا دیجیئے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتائیں کہ حدیث میں تحتہ المسجد کی نماز ادا کرنے کے لیئے الفاظ حکم دینے کے انداز میں آئے ہیں لیکن ہمارے فقہ حنفی میں کن کن دلیل کی وجہ سے یہ نماز واجب نہیں بلکہ مستحب ہے ؟

    جواب نمبر: 49586

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 45-33/D=1/1435-U حاشیہ کا اردو ترجمہ کرنے کی درخواست کرنے سے اندازہ لگتا ہے کہ آپ کے اندر اتنی لیاقت بھی نہیں ہے کہ عربی حدیث یا اس کے عربی حاشیہ کو سمجھ سکیں، لیکن بعد کی عبارت سے قابلیت اس درجہ کی ظاہر ہورہی ہے کہ حنفی مسلک کے دلائل دریافت فرمارہے ہیں، گویا جج بن کر فیصلہ کریں گے۔ جو شخص فیصلہ کرنے کے درجہ میں ہوتا ہے وہ عربی زبان سمجھنے کی لیاقت رکھتا ہے اور دلائل و شوہد کا مطالعہ خود کرتا ہے۔ فقہائے احناف نے دلائل کی بنیادوں پر ہی تحیة المسجد کو مستحب قرار دیا ہے، تفصیلات کتب فقہ اور شروح حدیث میں لکھی ہوئی ہیں۔ فتح القدیر لابن الہمام، اعلاء السنن علامہ ظفر احمد عثمانی کا مطالعہ فرمائیں، لیکن آپ کے لیے پھر مشکل پیش آئے گی کہ یہ کتابیں عربی میں ہیں اس کا ترجمہ کسی سے کرائیں گے پھر آپ کو اس کے ترجمہ پر اطمینان ہو کہ نہ ہو۔ جسے فقہائے احناف کے بتلائے مسئلہ پر اطمینان نہیں ہے اسے حنفی مقلد کے بتلائے ترجمہ پر اطمینان ہوجائے گا اس کا اطمینان کیسے حاصل ہو۔ ترجمہ حاشیہ نمبر ۱۱ بخاری ج۱ ص۶۳: ابن بطال نے کہا کہ ائمہ فتویٰ اس بات پر متفق ہیں کہ اس حکم کا ندب پر محمول ہے جو شخص بھی مسجد میں داخل ہو اسکے لیے نماز پڑھنا مستحب ہے۔ (ندب پر محمول ہونے کی وجہ یہ ہے کہ) کبارِ صحابہ میں سے بہت سے حضرات مسجد میں داخل ہوتے تھے پھر باہر آجاتے تھے اورمسجد میں کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے (اگر نماز پڑھنا واجب ہوتا تو یہ حضرات واجب کے تارک نہ بنتے) اور اہل ظاہر نے ہراس شخص کے لیے جو کہ مسجد میں داخل ہو نماز پڑھنا واجب قرار دیا ہے بشرطیکہ مکروہ وقت نہ ہو اور بعض اہل ظاہر نے کہا کہ ہروقت واجب ہے یہ بات الکرمانی میں لکھی ہے۔ علامہ ابن حجر شافعی نے فرمایا کہ یہاں دو باتیں باہم متعارض ہیں ایک نماز پڑھنے کا حکم دوسرے طلوع وغیرہ کے وقت میں نماز کی ممانعت پس شوافع نے تخصیص کا طریقہ اختیار کیا اور حنفیہ نے اس کے برعکس (ترجمہ ختم ہوا) ۔ آپ نے امر کے صیغہ کو حکم دینے کے معنی میں لیا ہے کیا ایسا ہرجگہ ہے؟ تو کیا قرآن میں وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا اور آیت مداینت میں ”فَاکْتُبُواہ“ امر کے صیغے حکم کے معنی میں آئے ہیں۔ اس کا ضابطہ اصول فقہ کی کتابوں، نور الانوار اصول الشاشی وغیرہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اسکا مطالعہ فرمالیں، یہ کتابیں بھی عربی میں ہیں مگر اردو زبان میں ان کا ترجمہ اور اردو شرحیں موجود ہیں جو درسیات کے تجاتی کتب خانوں میں یا مدارس کی لائبریوں میں دستیاب ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند