• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 44069

    عنوان: امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے الحمدو شریف پڑھنا چاہیے یا نہیں

    سوال: 1- جناب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ نماز میں امام کے پیچھے مقتدی ہو کر الحمدو شریف پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ 2- دعا میں آمین زور سے کہنا چاہیے یا آہستہ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتانے کی مہربانی کریں اللہ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے۔

    جواب نمبر: 44069

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 289-302/N=4/1434 (۱) احناف کے نزدیک مقتدی کے لیے امام کے پیچھے سورہٴ فاتحہ یا کسی اور سورت کی تلاوت جائز نہیں، مکروہ تحریمی ہے، مقتدی کو امام کے پیچھے سری اور جہری ہرنماز میں قراء ت کے وقت بالکل خاموش رہنا ہے: قال في الدر (مع الرد کتاب الصلاة باب صفة الصلاة، ۲:۲۶۶، ط مکتبہ زکریا دیوبند): والموٴتم لا یقرأ مطلقا ولا الفاتحة في السریة وما نسب بمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال فإن قرأ کرہ تحریما․․․ اھ وفي الرد: قال في الخزائن: وفي الکافي: ومنع الموٴتم من القراء ة مأثور عن ثمانین نفرا من کبار الصحابة منہم المرتضی والعبادلة وقد دون أہل الحدیث أسامیہم اھ، اس مسئلہ میں بہت تفصیل ہے، علما نے اس پر مختلف کتابیں اور رسائل لکھے ہیں، اس لیے آپ مسلک احناف کے قرآنی اور حدیثی دلائل اور فریق مخالف کے دلائل کے جوابات کی تفصیللات کے لیے مولانا سرفراز خاں صاحب صفدر کی کتاب احسن الکلام کی ہردو جلد اور مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی دامت برکاتہم کی کتاب دلیل نماز کا مطالعہ کریں۔ (۲) آمین دعا ہی ہے اور دعا میں اخفاء اصل ہے اس لیے دعا میں آمین آہستہ کہنا چاہیے، قال اللہ تعالیٰ اُدْعُوْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَة (سورہ اعراف آیت: ۵۵) وفي البدائع (کتاب الصلاة: ۱/۴۸۳، ط: مکتبہ زکریا دیوبند): ولنا ما روي عن وائل بن حجر أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أخفی بالتأمین، وہو قول علي وابن مسعود، وروي عنہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال: إذا قال الإمام یقولہا، ولأنہ من باب الدعاء لأن معناہ اللہم أجب أو لیکن کذلک قال اللہ تعالی: ”قد أجیبت دعوتکما“، وموسی کان یدعو وہارون کان یوٴمن، والسنة في الدعاء الإخفاء وحدیث وائل طعن فیہ النخعي وقال: أشہد وائل وغاب عبد اللہ؟ علی أنہ یحتمل أنہ صلی اللہ علیہ وسلم جہر مرة للتعلیم․․․ اھ


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند